افریقہ کے ایک جنگل میں سب جانور بہت محبت سے رہتے تھے۔آپ جانتے ہیں کہ شیر تو جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے،لیکن یہ شیر صاحب بادشاہ ہونے کے با وجود عام جانوروں کی طرح بہت سادگی سے اور اپنی عوام کی ساتھ مل جل کر رہتے تھے اور سب جانوروں کو اپنا دوست سمجھتے تھے۔
ایک دن موسم اچھا تھا شیر صاحب کے من میں کیا آئی کہ انہوں نے اپنی لمبی ہیٹ نما ٹوپی سر پر رکھی،ہاتھ میں چھڑی اُٹھائی اور چلے ’’لدھر ہوٹل‘‘کی طرف۔انہیں بہت بھوک لگی تھی اور وہ ایک بہت اچھا ڈنر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
’’ میں بیل کی دُم کا سوپ پیوں گا۔۔۔!ہاں بیل کی دُم کا سوپ، آہا۔۔۔۔ گرم گرم مزے دار توانائی سے بھرپور سوپ۔‘‘شیر صاحب سوچتے جا رہے تھے اورچلتے ہوئے سڑک کے کنارے لگے ڈیزی کے پھولوں کو اپنی چھڑی سے چھیڑ رہے تھے۔
شیر صاحب لدھر ہوٹل پہنچے تو منیجر لدھر انکو دیکھ کر بوکھلا گیا اور دوڑا انکو خوش آمدید کہنے کیلئے۔تمام بیرے بھی ان کی تعظیم کیلئے جمع ہوگئے اور لدھر نے خود آ گے بڑھ کر شیر صاحب کو کوٹ اُتارنے میں مدد دی،کوٹ اسٹینڈ پر لٹکا کر ہوٹل کی سب سے اچھی ٹیبل پیش کی جو خاص مہمانوں کیلئے مخصوص ہوتی ہے۔شیر صاحب نے کرسی پر بیٹھ کر لدھر کا شکریہ ادا کیااور اپنی دُم کو احتیاط سے کرسی کے نیچے کر لیا کہ کہیں کسی کے پیر کے نیچے نہ آجائے۔
’’ جناب شیر صاحب آپ کیا کھانا پسند کریں گے۔۔۔؟‘‘لدھر خود آڈر لینے کیلئے آیااور پیچھے تمام بیرے لائن بنا کر کھڑے آڈرکے منتظر تھے۔
’’ میرے لئے بیل کی دُم کا سوپ لاؤ۔۔۔!‘‘
شیر صاحب نے غررا کر آڈر کیا۔لدھر دوڑتا ہوا کچن میں گیا تاکہ باورچی کو آڈر سمجھا سکے۔ سوپ بہت جلدی تیار ہوگیا اور اس کو سب سے مہنگے اور خوبصورت چاندی کے پیالے میں ڈال کر پیش کیا گیا۔شیر صاحب نے سوپ کو سونگھتے ہوئے اپنی پلیٹ میں نکالا اور
بولے؛
’’ ہوں ں ں۔۔۔۔خوشبو تو بہت اچھی آ رہی ہے۔۔۔!‘‘
’’یہ ہے بھی بہت اچھاجناب۔۔۔!‘‘ پیچھے سے بیرا جنگلی چاہا بولااور انتظار کرنے لگا کہ اسکو پینے کے بعد شیر صاحب کے کیا تا ثرات ہوتے ہیں ،لیکن شیر صاحب نے تو وہ سوپ چکھا تک نہیں۔۔۔۔سامنے لیکر بیٹھے رہے۔
’’ کیا بات ہوئی جناب۔۔۔؟‘‘ بیرے نے انکے ماتھے پر بل پڑتے دیکھ کر تشویش سے پوچھا۔
’’ میں یہ سوپ نہیں پی سکتا۔۔۔!‘‘ شیر صاحب غررائے
’’ اوہ جناب مجھے یقین ہے کہ یہ سوپ بہت اچھا ہوگا،بہت گرم بھی ہے۔۔۔!‘‘ دوسرا بیرا خرگوش جلدی سے آگے آ کر بولاجو اب خطرہ محسوس کر رہا تھا
’’ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسا ہے کیسا نہیں،میں اسے نہیں پی سکتا۔۔۔!‘‘وہ بیرا بھاگا ہوا گیا اور تیسرے بیرے کو بلا لایا
’’جناب کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ لومڑی نے تعظیماً جھک کر بے تابی سے پوچھا
’’ میں یہ سوپ نہیں پی سکتا۔۔۔!‘‘ شیر صاحب سنجیدگی سے بولے
’’ کیا اس میں مرچیں تیز ہوگئیں۔۔۔؟ باورچن ہرنی اکثر مرچیں تیز کر دیتی ہے۔‘‘
’’ مجھے نہیں معلوم کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ میں یہ سوپ نہیں پی سکتا۔‘‘
لومڑی بھاگی بھاگی ہیڈ بیرے بارہ سنگھے کے پاس گئی اور بولی؛
’’ شیر صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ سوپ نہیں پی سکتے ،اب ہم کیا کریں۔۔۔؟‘‘
’’ میں دیکھتا ہوں کہیں پیاز زیادہ نہ ہوگئی ہو،انہیں پیاز پسند نہیں ہے۔‘‘بارہ سنگھا اپنا ایپرن اتارتا ہوا باہر بھاگاجو جلدی میں اسکے سینگوں میں پھنس گیا۔آج شیر صاحب کی اچانک آمد کی وجہ سے سبھی بہت بوکھلائے ہوئے تھے۔
’’غالباً سوپ میں پیاز زیادہ ہوگئی ہے جناب،اسی لئے آپ کو پسند نہیں آ رہا۔۔۔۔؟‘‘بارہ سنگھے نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
’’ مجھے نہیں معلوم ،میں نے بتایا نا کہ میں یہ سوپ نہیں پی سکتا۔۔۔۔!‘‘ شیر صاحب طیش میں آ کر دھاڑے
’’اچھا جناب میں منیجر صاحب کو بلا کر لاتا ہوں۔‘‘ وہ بے چارہ اپنے مالک کو بلا نے کیلئے دوڑا
لدھر یہ سن کر خوفزدہ ہوگیا کہ شیرصاحب غصے میں ہیںاور سوپ نہیں پی رہے۔وہ دوڑتا ہوا انکی ٹیبل پر آیااور پریشانی سے بولا؛
’’ مجھے افسوس ہے جناب کہ آپ کو سوپ پسند نہیں آیا۔کیا اس میں مکھی گِر گئی ہے۔۔ ۔ یا کوئی اور وجہ ہے۔۔۔۔ ؟‘‘
’’ نہیں کچھ نہیں گِرا۔۔۔۔! ‘‘وہ غصے سے بولے۔وہ زیادہ غصہ دکھا کر انہیں خوفزدہ نہیں کرنا چاہتے تھے،مگر انکی پریشانی کوئی سمجھ ہی نہیں رہا تھا۔
’’ تو کیا نمک تیز ہوگیا جناب۔۔۔؟‘‘ لدھر خوف سے کانپ رہا تھااسے معلوم تھا کہ شیر صاحب غصے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں آخر وہ شیر ہیں ،جنگل کے بادشاہ ہیں۔
’’ میں ۔صرف۔ یہ۔جانتا۔ہوں ۔کہ ۔میں ۔یہ۔سوپ۔ نہیں ۔ پی۔سکتا۔بس۔۔۔۔۔!شیر صاحب نے چبا چبا کر الفاظ ادا کئے
’’ٹھیک ہے جناب،میں باورچن کو بلاتا ہوںشاید وہ جان سکے کہ آپ سوپ کیوں نہیں پی رہے۔‘‘لدھر بولا
باورچن ہرنی پیر گھسیٹتی ہوئی آرہی تھی،اسکی آنکھیں خوف سے اور بھی پھیل گئی تھیں،وہ پریشانی میں اپنے ایپرن کے کونے مروڑتی ہوئی آئی،لگ رہا تھا کہ ابھی رو دے گی۔اس نے خوشامدی انداز میں سلام کیااور بولی؛
’’جناب میں نے سنا ہے کہ آپ سوپ نہیں پی رہے۔۔۔۔مگر یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں یہ ممکن ہے،میں یہ سوپ پینے سے معذور ہوں،حالانکہ یہ میں نے بہت شوق سے بنوایا تھا۔‘‘ شیر صاحب اداسی سے بولے
’’لیکن جناب یہ تو سب سے بہترین بیل کی دُم سے تیا رکیا گیا ہے اور اس میں نہ زیادہ پیاز ڈالی گئی ہے اور نہ ہی زیادہ نمک مرچ، اور یہ بہت گرم گرم آپ کو پیش کیا گیا تھا۔‘‘ ہرنی نے وضاحت کی
’’ وہ سب ٹھیک ہے۔۔۔۔مگر میں یہ پی نہیں۔‘‘ شیر صاحب بدستور اداسی سے بولے
’’ اچھا جناب پھر میں یہ سوپ لے جاتی ہوںاور دوسرا بنا کر لاتی ہوں۔۔۔!‘‘ہرنی نے ہاتھ سوپ کے پیالے کی طرف بڑھایا
’’خبردار۔۔۔۔۔۔۔میرے سوپ کو ہاتھ مت لگانا۔۔۔۔!‘‘ شیر صاحب اتنے زور سے دھاڑے کہ انکے لمبے لمبے دانت نظر آنے لگے اور ہرنی بوکھلا کر پیچھے ہٹ گئی۔
’’ میں یہ سوپ پینا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔لیکن کیا تم لوگو ں کو معلوم نہیں کہ چمچ کے بغیر سوپ کیسے پیا جا سکتاہے۔۔۔؟ چمچ لے کر آؤ۔‘‘ شیر صاحب نے آخر وجہ بیان کر ہی دی،پہلے وہ تکلف سے کام لے رہے تھے۔۔۔ انکا خیال تھا کہ وہ لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے۔
’’ اچھا اچھا جناب۔۔۔۔ہم بے حد شرمندہ ہیںکہ جلدی میں چمچ لانا بھول گئے۔۔۔!‘‘ اور سب کے سب چمچ لانے کیلئے دوڑے۔انہیں خوشی تھی کہ سوپ میں کوئی خرابی نہ تھی،مگر اب یہ ڈر تھا کہیں سوپ ہی ٹھنڈا نہ ہو گیا ہو۔۔۔۔۔!