شرارت کی سزا
ٹنکوؔ اور منکوؔ، دو ننھے ہاتھی کے بچے، دریائے نیل کے کنارے ایک قصبے میں رہتے تھے۔ ان کے دو بڑے بڑے پنکھے جیسے کان تھے، ناک کی جگہ ایک لمبی گول سونڈ، دو لمبے لمبے سنگِ مر مر جیسے سفید دانت،چار موٹی موٹی ٹانگیں تھیں اور ایک چھوٹی سی دُم تھی۔
ٹنکو چھوٹا اور منکو اس سے تھوڑی سی بڑی تھی۔ وہ بے حد شرارتی تھے ۔۔ ان کو ہر وقت نت نئی شرارتیں سوجھتی رہتی تھیں ۔ کوئی بھی ان کی شرارتوں سے بچا ہوا نہیں تھا۔وہ دونوں بہن بھائی ہر وقت دریائے نیل کے کنارے کھیلتے رہتے تھے اور جب گرمی لگتی تو دریا کے نیلے نیلے شفاف پانی میں نہانے چلے جاتے تھے۔
دریائے نیل بہت خوبصورت ہے اور وہاں بہت لوگ گھومنے کے لئے آتے ہیں۔سیاح بڑی بڑی با دبانی کشتیوں بیٹھ کر دریا کی سیر کرنے کے لئے آتے ہیںــ۔ایک دن ٹنکو کو ایک نئی شرارت سوجھی، اس نے منکو کو بتائی تو اس کو بھی پسند آئی۔ وہ دونوں اپنی اس شرارت پر عمل کرنے کے لئے دریا اُتر گئے اور پانی کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔
تھوڑی ہی دیر میں اُنہیں سیاحوں کی ایک کشتی آتی نظرآئی، جیسے ہی وہ کشتی ان کے قریب آئی ۔۔۔۔۔تو ان دونوں نے پانی سے سر با ہر نکالا اور اپنی سونڈ میں پانی بھر کر کشتی میں بیٹھے لوگوں پر چھڑکاؤں کر دیا۔
اس طرح اچانک پانی کا فوارہ پڑنے سے کشتی میںبیٹھے سب لوگ شرابور ہوگئے اور گھبرا گئے
’’ اوہ نہیں ۔۔۔۔۔میرے تو سارے بال بھیگ گئے۔۔۔۔!‘‘ ایک عورت کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا
’’ اور میرا نیا سوٹ برباد ہوگیا۔۔۔۔!‘‘ ایک آدمی چیخا اور کھڑا ہو کر اپنے کوٹ پر سے پانی جھاڑنے لگا، اس کا سارا سوٹ بھیگ چکا تھا
ٹنکو اور منکو کے منہ سے ہنسی کے فوارے چھوٹ رہے تھے، ان کو کشتی کے لوگوں کو پریشان دیکھ کر بہت ہنسی آ رہی تھی۔ وہ خوش تھے کہ ان کامنصوبہ کامیاب ہو گیا۔
علیؔ ، جو سیاحوں کو کشتی میں گھمانے کے کئے لایا تھا،اس کو ٹنکو منکو کی اس شرارت پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ زیادہ غصہ اس بات پر آرہا تھا کہ وہ اپنی شرارت پر شرمندہ ہونے کی بجائے ان پر ہنس رہے تھے۔ان کی کشتی اب دور جا چکی تھی۔
ٹنکو منکو پھر اپنے کھیل میں مشغول ہوگئے۔ ان کو پانی میں کھیلنے میں بہت مزہ آتا تھا۔اچانک ٹنکو نے ایک اور کشتی آتی دیکھی،وہ خوش ہوگیا۔
2 ’’ وہ دیکھو ۔۔۔۔ایک اور شکار آ رہا ہے۔۔۔!‘‘ ٹنکو نے اپنی سونڈ سے اشارہ کر کے منکو کو بتایا۔
ٹنکو منکوبطخ کی طرح ڈُبکی لگا کر پھر پانی میں غائب ہوگئے اور جب وہ سفید بادبانوں والی کشتی ان کے قریب آئی تو ان دونوں نے اچانک باہر نکل کر کشتی میں بیٹھے لوگوں پر پانی کا فوارہ چھوڑ کو سب لوگوں کو بھگو دیا۔
ایک چھوٹا بچہ ڈر کر رونے لگا،پانی کا فوارہ اس کے منہ پر پڑا تھا۔ اس کی ماں کو ٹنکو منکو پر بہت غصہ آرہا تھا۔لیکن وہ کچھ نہ کرسکی کیونکہ اتنی دیر میں کشتی دور جاچکی تھی۔ ٹنکو منکو کو تو بہت مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔۔وہ لوگوں کو پریشان کر کے بہت خوش ہو رہے تھے۔۔۔۔۔قہقہے لگا رہے تھے۔ ان کی ہنسی تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
جب وہ کشتی بھی دور چلی گئی تو ٹنکو منکو نے پھر پانی میں کھیلنا شروع کردیا۔کچھ دیر بعد دن ڈھلنے لگا اور سورج بھی غروب ہونے کے لئے چل دیا، تب ٹنکو منکو کو بھی تھکن محسوس ہونے لگی۔ وہ دونوں پانی سے باہر آگئے اور دریا کے کنارے لگی لمبی لمبی نرم گھاس پر لیٹ کر آرام کرنے لگے۔وہ سارا دن کھیل کھیل کر اور شرارتیں کر کر کے اتنے تھک چکے تھے کہ جلد ہی ان دونوں کو نیند آگئی۔
وہ دونوں کشتیاں سیاحوں کو سیر کرا کر اب واپس لوٹ رہی تھیں۔وہ جب اُدھر سے گزرے تو اُنہوں نے دیکھا کہ شرارتی ٹنکو منکو گہری نیند سو رہے ہیں۔ ان کو یاد آگیا کہ ٹنکو منکو نے ان کی ساتھ کتنی بُری شرارت کی تھی۔علی کو ان پر بہت غصہ تھا۔
’’ شش ۔۔۔۔۔مجھے ایک آئیڈیا آیا ہے ۔۔!‘‘ علی نے سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دوسری کشتی کو بھی دریا کے کنارے روک لیا
اور سب لوگ آہستگی سے کشتیوں سے نیچے اُ تر آئے، وہ بچہ اور اس کی ماں بھی آگئے۔
اب علی نے کشتی سے ایک حوض نکالا ، یہ ایک بہت بڑے سائز کا پائپ ہوتا ہے جو کشتی میں لائے جانے والے اُونٹوں کو پانی پلانے کے لئے رکھا جاتا ہے، اور ٹیوب ویل جیسی موٹر سے دریا کا پانی لیا جاتا ہے،وہ حوض لا کر علی نے گہری نیند سوئے ٹنکو اور منکو پر پانی کا فوارہ چھوڑ دیا۔۔۔۔!
’’ اوہ۔۔۔۔اتنا ٹھنڈا پانی کہاں سے آیا۔۔۔۔؟‘‘
ٹنکو منکو بوکھلا کر اُٹھ بیٹھے اور اپنی سونڈ گھما گھما کر پانی کے فوارے سے بچنے کی کوشش کرنے لگے۔
’’ بس کرو۔۔۔۔بس بھی کرو، بند کرو اس پانی کو۔۔۔۔۔!‘‘
منکو پاگلوکی طرح چھلانگیں لگا رہی تھی ، جس کی وجہ سے ساری گھاس خراب ہو گئی تھی۔
اب علی کی ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا ۔۔۔۔۔ان کی یہ حالت دیکھ کر سب لو گوں کو بے تحاشہ ہنسی آ رہی تھی ۔وہ بچہ اور اس کی ماں بھی ہنس رہے تھے اور وہاں موجود سب لوگ قہقہے لگا رہے تھے۔ٹنکو منکو چھلانگیں لگا رہے تھے۔۔۔۔ ! ٹھنڈا پانی ان کو بگھو رہا تھا ، ان کی ناک ، کان اور آنکھوں میں بھی پانی جا رہا تھا اور وہ پانی بند کرنے کے لئے التجا کر رہے ۔۔۔۔۔معافی مانگ رہے تھے۔
’’ اب تمہیں پتا چلا کہ جب اچانک پانی ہمیں بھگو دیتا ہے توکیسا لگتا ہے۔۔۔۔۔؟ ‘‘ چھوٹا بچہ بولا
3 علی نے پانی بند کردیاتو سب لوگ واپس کشتی کی طرف چل پڑے۔وہ کشتی میں بیٹھے اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔
ٹنکو اور منکو بہت دیر تک گم صُم کھڑے اِدھر اُدھر دیکھتے اور حیران ہوتے رہے کہ آخر یہ ان کی ساتھ ہوا کیا تھا ۔۔۔۔۔یہ مزاق تو ان کو بہت مہنگا پڑا تھا ۔
لیکن اب ان کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ اس طرح آتی جاتی کشتیوں پر پانی پھینک کر لوگوں کو بھگونا اور پریشان کرناکوئی اچھی بات نہیں ۔اُنہیں بھی ایسے ہی تکلیف ہوتی ہوگی جیسے ہمیں ہوئی۔
اُس دن کے بعد سے ٹنکو منکو نے لوگوں پر پانی پھینک کر ان کو ستانا چھوڑ دیا تھا۔اب وہ کشتی میں آتے لوگوں کو دیکھ کر اپنا سونڈ ہوا میں لہرا کر خوش آمدید کہتے تھے۔