ایک بار جنگل کے تمام سینگوں والے جانوروں نے میٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا،جس میں وہ پنجوں اور نوکیلے دانتوں والے (یعنی گوشت خور)جانوروں سے بچاؤکے طریقوں پر غور اور تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے،کیونکہ اُنہیں ہر وقت اور ہر جانب سے اپنے شکار ہوجانے کا خطرہ رہتا تھا۔جنگل میں ہر طرف میٹنگ کا اعلان کرا دیا گیااور اسکے لئے جنگل کا ایک مناسب اور محفوظ کونہ مقرر کر دیا گیا۔
میٹنگ والے دن جنگل کے ہر کونے سے سینگوں والے جانور جوق در جوق اکٹھے ہونے لگے۔وہ بڑے شوق اور جوش و خروش سے شور مچاتے ،ڈکارتے،پھنکارتے، من منماتے،غرضیکہ اپنی اپنی آوازیں نکالتے پودوں اور جھاڑیوں کو روندتے چلے آ رہے تھے۔آخر ہر ایک کو اپنی جان عزیز ہوتی ہے اسلئے ہر کوئی اپنے دشمن سے بچاؤ کے طریقے معلوم کرنا چاہتا تھا لہٰذااس دن ایک بہت بڑا ہجوم اکھٹا ہوگیا،لگتا تھا کہ سارا جنگل ہی اس کونے میں سمٹ آیا تھا۔
بڑے بڑے سینگوں والے ہٹے کٹے مسٹر بیل بھی وہاں موجود تھے جنکو اس میٹنگ کا صدر مقرر کیاگیا تھا ۔ہرن نے اپنے کُھر زمین پر مار کر،گائے نے اپنی دم لہرا کر اور بکری نے داڑھی ہلا کر اس بات کی تائید کی۔یونی کورن(ایک سنگ والا )اپنا ایک سیدھا لمبا سینگ اٹھائے کھڑا تھا،مار خور اپنے کمان نما سینگ تیز کر رہا تھا،مسٹر گیندے اپنے اکلوتے موٹے سینگ کی ساتھ وہاں موجود تھے جنہوں نے بیٹھنے کے لئے بہت سی جگہ گھیر لی تھی۔ایک شور برپا تھا،ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔
بوڑھے بھیڑیئے نے جب اس میٹنگ کے بارے میں سنا تو اسے بے چینی لا حق ہوگئی کہ تمام لذیذ گوشت والے شکار سب ایک جگہ موجود ہیں ،نہ جانے وہ کیا باتیں کر رہے ہیں اور ہمارے خلاف کیا کیا منصوبے بنا رہے ہیں۔۔۔!وہ یہ سب جاننے کیلئے بے تاب تھااور وہاں جانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔مگر وہاں تو صرف سینگوں والے جانور ہی جا سکتے تھے اور وہ بغیر سینگ کاتھا،سب اسکو سینگ مار مار کر بھگا دیتے۔اب وہ منصوبے بنانے لگا کہ وہ کس طرح اس مینٹنگ میں شریک ہو سکتا ہے۔
آخر ایک ترکیب اس کے ذہن میں آہی گئی جس پر وہ دل ہی دل میں مسکرایاتھا لیکن پھر بھی اسکی بتیسی باہر آگئی تھی،بات بے بات بھیڑیئے کی بتیسی باہر آجاتی تھی،ہر وقت اسکی بانچھیں کھلی رہتی تھیں۔اس نے ایک مُڑی ہوئی چھڑی ڈھونڈی،اسکے دو پیارے سے سینگ تراشے اور اپنے سے پر باندھ لئے۔۔۔۔اب وہ بالکل سینگو والا جانور معلوم دیتا تھا۔ اب وہ میٹنگ میں شریک ہونے کیلئے چل پڑا۔
خرگوش جھاڑیوں میں بیٹھا تھا ،اس نے دیکھا کہ ایک بھیڑیئے جیسا جانرو اس کے پاس سے گزرا ہے جس کے سینگ بھی تھے۔وہ بڑا حیران ہوا کہ ایسا جانور کہاں سے آیا ہے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔!لہٰذا وہ بھی بھیڑیئے کے پیچھے چل پڑا۔بھیڑیا تو بڑے فخر سے میتنگ میں شریک ہوگیا لیکن خرگوش نزدیکی جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گیا کیونکہ اسکے سینگ نہیں تھے۔
چالاک خرگوش سمجھ چکا تھا کہ ضرور کوئی چکر ہے،’’ ہوں ں ں۔۔۔۔ کیا لمبے لمبے دانت اور نوکیلے پنجے کافی نہیں تھے جو بوڑھے بھیڑیئے نے اب سینگ بھی لگا لئے ہیں۔۔۔۔۔؟خرگو ش بڑ بڑایا ،جھاڑیوں میں بیٹھکر اس نے بھیڑیئے پر نظر رکھی ہوئی تھی۔
مسٹر بیل کی نظر جب بھیڑیئے پر پڑی تو وہ حیرانی سے بولا؛’’ تم کون ہو۔۔۔۔؟‘‘کیونکہ اس نے بھی پہلے کبھی سینگوں والا بھیڑیا نہیں دیکھا تھا۔
’’بب۔۔۔۔۔۔با آ۔۔۔۔۔میں ایک چھوٹا بچھڑا ہوں۔‘‘ بھیڑیا سر جھکا کر بچھڑے جیسی آوازیں نکالنے لگا۔مسٹر بیل نے اپنی موٹی عینک کے اوپر سے اسکو غور سے دیکھا ،لیکن اتنی دیر میں انکو اسٹیج پر بلالیاگیااور وہ بھیڑیئے کو نظر انداز کر کے اسٹیج پر چلے گئے۔بھیڑیا بھی مطمئین ہو کر مجمع میں جا کر بیٹھ گیااور آس پاس کے جانوروں کو سونگھنے لگاجیسے کوئی اپنی پسندیدہ ڈش کو سونگھتا ہے۔
میٹنگ شروع ہوگئی،سب لوگ محوِ یت سے اسٹیج پر ہونے والی کاروائی کو دیکھنے لگے۔کچھ سمجھدار جانور اسٹیج پر آکر تقریریں کرنے اور خود کو گوشت خور جانوروں سے بچانے کے آزمودہ طریقے بتانے لگے۔اتنے میں ایک موٹی جنگلی مکھی بھی وہاں آنکلی اور سب کے سروں پر اُڑنے لگی،کسی نے بھی اسکی طرف دھیان نہیں دیاکیونکہ وہاں سب سبزی خور جانور تھے، بھیڑیا اس مکھی پر جھپٹا۔خرگوش نے وہیں سے ایک زوردار قہقہہ لگایا جو بھیڑیئے پر نظر رکھے ہوئے تھا۔قہقہہ سن کرمسٹر بیل غصے سے ڈکارے ؛
’’یہ کون بد تمیز ہے جسے میٹنگ کے آداب کا بھی خیال نہیں۔۔۔۔ ؟‘‘ہر طرف خاموشی چھا گئی کیونکہ کوئی بھی سینگوں والا جانور ایسی حرکت نہیں کر سکتا تھا۔
’’ کیا تم نے کوئی ایسا بچھڑا دیکھا ہے جو مکھی پر چھپٹتا ہو۔۔۔؟‘‘خرگوش اپنی پوری قوت سے چلا کر وہیں سے بولا،سب جانوروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا لیکن کسی کو بھی یہ بات سمجھ نہیں آئی لہٰذا وہ پھراسٹیج کی طرف متوجہ ہوگئے ،لیکن بھیریئے کو خرگوش کی بات سمجھ آگئی تھی،اسکو بہت غصہ آیا لیکن اس وقت وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا لہٰذا پچ کر کے بیٹھا رہا۔
ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک مچھر نے بھیڑیئے کی گُدی پر کاٹ لیا،بھیڑیا فوراً زمین پر بیٹھ گیا اور پچھلی ٹانگ اُٹھا کر اپنی گُدی کھجانے لگا۔ بھیڑیئے کی اس حرکت پر خرگوش نے پھر ایک زوردار قہقہہ لگایا۔
مسٹر بیل نے پھر اپنی موٹی عینک کے ا وپر سے مجمعے پر نظر ڈالی اور غصے سے ڈکارے مگر سب خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے
لگے۔
’’ کیا آپ لوگوں نے کبھی کسی بچھڑے کو پنجے سے اپنی گُدی کھجاتے دیکھا ہے۔۔۔۔؟‘‘ خرگوش پھر چلایا لیکن کسی کی کچھ سمجھ نہیں آیا
کیونکہ اس وقت کسی کا بھی دھیان بھیڑیئے کی طرف نہیں تھا۔لیکن بھیڑیا گھبرا گیا اور ایک بڑے مار خور کے پیچھے ہاگیا تاکہ مسٹر بیل کی نظروں سے بچ جائے۔
میٹنگ دوبارہ شروع ہو چکی تھی ،لیکن بد قسمتی سے تھوڑی ہی دیر بعد بہن گائے بھیڑیئے کی دم پر چڑھ گئی،بھیڑیاجو آرام سے دم زمین پر پھیلا کر بیٹھا تھا ایک دم اچھلا اور ایک زوردار چیخ اس کے منہ سے نکلی۔پھر مجمعے پر خوفناک خاموشی چھا گئی ہر کوئی ایک دوسرے کو د یکھنے لگا،مسٹر بیل پھر غصے سے دکارے اور خرگوش وہیں سے بولا؛
’’کیا کسی نے کسی بچھڑے کی اتنی لمبی فر والی دم دیکھی ہے کہ جو کسی گائے کے پیر تلے آجائے۔۔۔؟‘‘بھیڑیا خوفزدہ ہوگیا اور ما خور کے پیچھے دبک گیا۔کسی نے بھی کوئی توجہ نہیں دی لیکن مسٹر بیل کو شک ہو گیا وہ مسلسل بھیڑیئے کو گھور رہے تھے۔
میٹنگ پھر جاری ہوگئی،لیکن مسٹر بیل بھیڑیئے کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔۔۔وہ آہستہ آہستہ مجمعے کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔جب وہ قریب آگئے تو خرگوش پھر چیخ کر بولا؛’’کیا کبھی دو اور دو پانچ ہوسکتے ہیں۔۔۔۔؟ کیا کبھی چھڑی کے سینگ بن سکتے ہیں یا سینگ چھڑی بن سکتے ہیں ۔۔۔؟‘‘
اور مسٹر بیل اپنا سر جھکا کر اور اپنے نوکیلے سینگ آگے کر کے گولی کی طرح بھیڑیئے کی طرف دوڑے۔بھیڑیئے نے جب بڑے بڑے سینگ اُٹھائے مسٹر بیل کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو چیخ مار کر دوڑ پڑا ۔۔۔۔۔۔وہ آگے آگے اور مسٹر بیل اسے پیچھے۔۔! وہ پیچھے سے ٹکر مارتے تو بھیڑیا کئی فٹ دور جا گرتا ،پھر اُٹھ کر دوڑنے لگتا۔۔۔۔! یہ دوڑ اس وقت تک جاری رہی جب تک مسٹر بیل تھک نہیں گئے اور بھیڑیا ادھ مُوا نہیں ہوگیا۔ اُنہیں زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ بھیڑیئے نے نکلی سینگ لگا کرہمارا مزاق اڑایا اور ہمیں بے وقوف بنایا۔
اگلے دن یہ خبر گرم تھی کہ بھیڑیا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا۔خرگوش نے یہ سنا تو بہت خوش ہوا کہ ایک بُرے بھیڑے سے جنگل پاک ہوگیا۔اس نے سوچا بھیڑیئے کے گھر جانا چاہیئے ،اسکے جنازے میں ہی شریک ہوجاؤں اب جیسا بھی تھا آخر تھا تو جنگل کا باسی۔
خرگو ش خوشی خوشی بھیڑیئے کے گھر پہنچا۔۔۔۔! اس نے۔دیکھا سبھی جانور تعذیت کیلئے آرہے ہیں،پھر بھی اسے شک تھا کہ کہیں بھیڑیا زندہ ہی نہ ہواور اگر مر بھی چکا ہوگا تو کوئی پتا نہیں اسے دیکھ کر زندہ ہو جائے۔لہٰذا وہ دروازے کے باہے ہی کھڑا رہا اور ایک سوراخ سے اندر جھانک کر دیکھنے لگا پھر بولا؛
’’ آہ بے چارہ بھیڑیا۔۔۔۔مسٹر بیل کے ہاتھوں مارا گیا،بہت افسوس ہوا۔۔۔۔!‘‘ پھر آتے جاتے جانوروں سے پوچھنے لگا،’’مجھے بتاؤ
بھیڑیا ہنس تو نہیں رہا۔۔۔؟ اسکی بتیسی اندر ہے یا باہر۔۔۔؟‘‘
’’ وہ کیوں ہنسے گا۔۔۔؟کہیں مرے ہوئے بھی ہنستے ہیں کیا۔۔۔؟‘‘کوئی بولا
’’ ہاں۔۔۔۔ ۔۔۔۔!تم نہیں جانتے،یہ بھیڑیئے بھی عجیب مخلوق ہوتے ہیں،ان کا دم نہیں نکلتا جب تک انکی بتیسی باہر نہیں آجائے۔‘‘
خرگوش چالاکی سے بولا،اور بھیڑیئے نے فوراً بتیسی باہرنکال دی کیونکہ وہ خرگوش کو یقین دلانا چاہتا تھا کہ وہ مرا ہوا ہے،لیکن جیسے ہی بھیڑیئے کی بتیسی باہر آئی خرگوش سر پر پاؤ ں رکھ بھاگا اور اپنے گھر پہنچ کر ہی دم لیا۔ یہ بھیڑیئے کا منصوبہ تھا کہ جیسے ہی خرگوش اسکو مرا ہوا سمجھ کر اسکے نزدیک آئے گا وہ اسکو دبوچ لے گا کیونکہ خرگوش سے بدلہ بھی تو لینا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔