ایک بار گرمیوں کے موسم میں لومڑ نے سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنے باغیچے میں مٹر کی بیلیں لگائے۔یہ سوچ کر اس نے جلدی سے بیلچہ اٹھایااور اپنے باغیچے کے ایک حصے کی کھدائی شروع کر دی۔کھدائی مکمل کرنے کے بعد وہ مٹر کے بیج خرید کر لایااور سخت دھوپ میں کھڑے ہو کر بڑی محنت سے اس نے ایک ایک بیج بویا۔۔۔۔شام کو ساری کیاری میں پانی دیا اور بڑی بے چینی سے ان بیجوں کے پھوٹنے کا انتظار کرنے لگا۔
جلد ہی بیجوں میں سے پودے پھوٹ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ بیلوں میں تبدیل ہوگئے۔مٹر کی بیلیں تمام باغیچے میں پھیل گئیں۔پھر کچھ عر صے میں ان میں مٹر کی پھلیاں لگ گئیں ۔خوب ہری بھری تروتازہ موٹے موٹے دانوں سے بھری پھلیاں دیکھ کر لومڑ کے منہ میں پانی بھر آیا۔اس نے سوچا صبح اُٹھ کر انہیں پھلیوں کا ناشتہ کرونگا۔
اگلی صبح جب لومڑ منہ دھوکر اپنے باغیچے میں پہنچا تو کیا د یکھتا ہے کہ اسکی پیاری پیاری رس بھری مٹر کی پھلیوں کا تو صفایا ہو چکا ہے۔۔۔! کوئی پہلے سے ہی آکر اسکی تمام پھلیاں کھا چکا ہے۔لومڑ تو غصے سے پاگل ہوگیا۔اس نے سوچا یہ کام ضرور خرگوش کا ہی ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس خرگوش کے بچے کو سخت سے سخت سزا دے مگر وہ اتنا چالاک تھا کہ کسی طرح بھی لومڑ کے ہاتھ نہ آتا تھا۔
اس نے اپنے باغیچے کا معائنہ کیا تو دیکھا ایک جگہ سے باڑ ھ ہٹا کر کسی نے راستہ بنایا ہوا تھا۔اس نے سوچا ہو نا ہو خرگو ش اسی راستے سے آکر اسکی پیاری پیاری مٹر کی پھلیاں کھاتا ہے۔پھر اسے ایک ترکیب سوجھی۔۔۔۔اس نے سوچا کیوں نہ اس راستے پر پھندہ لگا دیا جائے پھر جو بھی یہاں چوری کی نیت سے آئے گا پکڑا جائے گا۔
اس کے باغیچے میں ایک پتلے لمبے لچکدار تنے والا درخت بھی کھڑا تھا،لہذاٰ لومڑ نے ایک رسی لی اور درخت کے پتلے لمبے تنے کو نیچے کھینچ کر اسکے اوپر رسی کو باندھ دیا تو وہ کمان کی طرح گول ہوگیاپھر اس رسی کا گول پھندہ بنا کر باڑھ میں اس راستے پر رکھ دیا جہاں سے نا معلوم چور آیا کرتا تھا اور اس جگہ ایک چھڑی بھی گاڑ دی تاکہ جو بھی آئے گا اور چھڑی کو ہٹائے گا تو اس پھندے میں پھنس جائے گا،
کمان کی طرح مُڑا ہوا درخت ایک جھٹکے سے سیدھا ہو جائے گا اور چور درخت سے لٹک جائے گا۔
’’ ہوں ں ں۔۔۔۔۔یہ اس چالاک خرگوش کو قابو کرنے کی اچھی ترکیب ہے۔۔۔! ‘‘ لومڑ نے سوچا،پھر پھندہ تیار کر کے باڑھ میں لگا دیا اور اطمینان سے سو گیا۔
صبح جب خرگوش حسبِ معمول مٹر کھانے کیلئے باغیچے میں داخل ہوا تو وہ پھندے میں پھنس کر درخت سے لٹک چکا تھا۔یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ خرگوش کو بہت دیر تک یقین ہی نہ آیا کہ وہ اس بڈھے لومڑ کے لگائے ہوئے پھندے کا شکار ہوچکا ہے۔اور اب وہ پھندے سے لٹکا سوچ رہا تھابڈھا لومڑ آئے گا تو اس کے کیا تاثرات ہونگے۔۔۔؟وہ کیا کہے گا۔۔۔؟اس کو کیا سزا دے گا۔۔۔؟
خرگوش دل ہی دل میں ایک کہانی گھڑنے لگا کہ جب لومڑ آئے گا تو کیا بہانہ کرے گا کہ وہ اسکے باغیچے میں کیا کر رہا تھا۔ابھی خرگوش کہانی سوچ ہی رہا تھا کہ ریچھ کے غررانے کی آواز آئی جو نیچے سڑک پر سے گزر رہا تھا۔خرگوش نے اسکو متوجہ کیا؛
’’ہیلو بھائی ریچھ۔۔۔۔! ‘‘ خرگوش نے خوش دلی سے پکارا
’’ ہائے بنی۔۔۔۔۔۔ صبح بخیر،کیسے ہو تم۔۔۔۔؟‘‘
ریچھ اوپر دیکھ کر چلایا اور جب اس نے یہ دیکھاکہ خرگوش میاں درخت سے لٹکے جھول رہے ہیں توبڑ احیران ہو او ر پوچھا؛
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔؟‘‘
’’میں آج کل یہی کام کر رہا ہوںاور پیسے بنا رہا ہو ں۔‘‘ خرگوش نے بات بنائی؛’’ دراصل میں لومڑ کے باغیچے میں پہرہ دیتا ہوں، یہاں لٹک کر کوئے بھگاتا ہوںاور ایک منٹ کا ایک روپیہ لیتا ہوں اسطرح صبح سے شام تک بہت پیسے کما لیتا ہوں۔‘‘
’’ یہ تو بہت اچھا کام ہے۔۔۔! ‘‘ ریچھ متاثر ہوتے ہوئے بولا
’’ اچھا تو پھر یہ کام تم کرلو۔‘‘خرگوش بڑی سخاوت سے بولا؛’’دراصل تمہاری فیملی بہت بڑی ہے نا جن کیلئے تمہیں بہت کام کرنا پڑتا ہے اور یہ کام تو ایسا ہے کہ محنت بھی نہیں کرنا پڑتی اور پیسے بھی زیادہ ملتے ہیں،یہ کام تمہارے لئے بہت مناسب رہے گا۔میرا کیا ہے میں کوئی اور کام کرلونگا۔‘‘
’’ ہاں ہاں میںیہ کام کرنے کو تیار ہوں،مگر میں اوپر کیسے آؤں۔۔۔۔؟‘‘ ریچھ خوشی سے بولا
’’ یہ رسی کھینچ لو۔۔۔۔۔درخت کا تنا نیچے آجائے گا،پھر میں نیچے اور تم اوپر آجاؤ گے۔۔۔۔بہت آسان طریقہ ہے۔‘‘ خرگوش نہایت چالاکی سے بولا
تھوڑی ہی دیر میں خرگوش بحفاظت درخت سے نیچے آ چکا تھا اور ریچھ اوپر لٹک رہا تھا۔پھر خرگوش بھاگ کر لومڑ کے دروازے پر گیااور چیخ چیخ کر بولنے لگا؛
’’ارے او لومڑ ۔۔۔۔ جلدی باہر آؤ ،میں تمہیں دکھانا چاہتا ہوںکہ تمہارے مٹروں کا چور کون ہے۔۔۔!‘‘
لومڑ جلدی سے اپنی چھڑی اُٹھا کرباہر آیااور اپنے باغیچے کی طرف دوڑاجہاں بیچارا شامت کا مارا ریچھ لٹک رہا تھا۔
’’ اوہ اچھاتو تم چور ہو۔۔۔۔۔آخر پکڑے گئے نا۔۔۔!‘‘ اور اس سے پہلے کہ ریچھ کوئی وضاحت کرتالومڑ نے اپنی چھڑی سے گدا گد اسکی پٹائی شروع کردی۔
’’بہت خوب بہت خوب۔۔۔۔۔اور مارو اسکو، اسکی کوئی بات نہیں سننا۔۔۔۔۔یہ بہت بہانہ باز ہے۔‘‘خرگوش اچھل اچھل کر چیخ رہا تھا اور خوش ہو رہا تھا۔جب ریچھ کچھ بولنے کی کوشش کرتا تواس پر ایک زوردار چھڑی پڑتی حتیٰ کہ وہ ادھ مووا ہوگیا اور کچھ بولنے کے قابل نہ رہا۔
خرگوش چپکے سے وہاں سے کھسک گیا اور جا کر تالاب کنارے کیچڑ میں بنے ہوئے ایک سوراخ میں چھپ گیا،اسکا جسم کیچڑ میں ایسے لت پت ہوگیا تھا کہ کوئی اسکو پہچان نہیں سکتا تھا۔ صرف اپنی ایک آنکھ اس نے سوراخ پر فٹ کر رکھی تھی کہ باہر کے حالات سے باخبر رہے،اسکی وہ آنکھ بالکل ایک مینڈک کی آنکھ لگ رہی تھی۔
تھوری دیر میں ریچھ بھی ہانپتا کانپتا پہاڑی سے نیچے تالاب کی طرف آیا ،وہ خرگوش کو تلاش کر رہا تھا،اسکی نظر کیچڑ میں سوراخ پر فٹ آنکھ پر پڑی تو اس نے پوچھا؛
’’او مینڈک بھائی۔۔۔۔۔۔۔یہاں تم نے خرگوش کو تو نہیں دیکھا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ہاں ۔۔۔۔۔وہ ابھی نیچے کی طرف گیاہے،جلدی کرو جاکر دیکھو۔۔۔۔!‘‘ اور ریچھ گولی کی طرح نیچے کی طرف دوڑاتاکہ جلد از جلد خرگوش کو پکڑ سکے۔اور خرگوش ہاتھ جھاڑتا ہوا سوراخ سے باہر نکل آیا، دھوپ میں بیٹھ کر کیچر خشک کر کے جسم سے جھاڑی اورپھر آرام سے گھاس پر لیٹ کر سیٹی بجاتے ہوئے بولا؛
’’آہ کیا مزیدار موٹے موٹے مٹر تھے،بنی تم بھی بہت کمینے ہو،صبح پھر رس بھرے مٹروں کا ناشتہ کروگے اور بڈھے لومڑ کو بیوقوف بناؤ گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔