نیلی ڈارھی والا
پرانے زمانے کی بات ہے ۔ ایک بہت امیر شخص تھا ، شہر اور گائوں میں جس کے بہت سے خوبصورت بنگلے تھے ۔ سونے اور چاندی کے پرتن تھے۔ قیمتی جواہرات جڑے صوفے اور بیڈ تھے۔ غرضیکہ نے اندازہ دولت تھی۔ لیکن بد قسمتی سے اس کی نیلی ڈاڑھی بھی تھی جس کی وجہ سے وہ خوفناک دکھائی دیتا تھا۔
نیلی ڈاڑھی والے کے پڑوس میں ایک معزز خاتون رہتی تھیں جن کی دو بیٹیاں تھیں اور وہ چاہتا تھا کہ ان میں سے کسی ایک سے اس کی شادی ہو جائے ۔ اس سلسلے میں اس نے معزز خاتون سے بات بھی کی لیکن دونوں میں سے کوئی بھی لڑکی نیلی ڈاڑھی والے سے شادی کرنے کو تیار نہ ہوئی۔
سب سے بری بات جو نیلی ڈاڑھی والے کے بارے میں مشہور تھی وہ یہ تھی کہ یہ شخص پہلے بھی کئی بار شادی کر چکا تھا۔ لیکن اس کی پچھلی بیویاں کہاں غائب ہو جاتی ہیں یہ کسی کو علم ہی نہیں تھا۔ اور نہ ہی کوئی پوچھنے کی جرات کر سکتا تھا۔
معزز خاتون اور ان کی بیٹیوں سے جان پہچا ن بڑھانے کے لیے نیلی ڈاڑھی والے نے چند اور پڑوسیوں سمیت معزز خاتون کو اپنے گائوں کی سیر کرانے کے لیے اپنے ٹائون والے بنگلے پر مدعو کیا۔ سب لوگ بخوشی راضی ہو گئے۔ وہاں انہوں نے پورا ہفتہ گزارا۔ سبھی بہت خوش تھے ۔ ان کی راتیں قصے کہانیا ں سنانے میں اور دن گھومنے پھرنے شکار کرنے اور دعوتیں اڑانے میں گزرتے۔ اور اس عرصے میں ان لوگوں نے محسوس کیا کہ نیلی ڈاڑھی والے کی ڈاڑھی اتنی بھی نیلی نہیں ہے کہ وہ بہت زیادہ خوفناک لگے۔ اور یہ کہ وہ بہت ایماندار اور پر خلوص شخص ہے۔ اور شہر لوٹنے سے پہلے ہی معزز خاتون اپنی بیٹی کی اس سے شادی کرنے پر راضی ہو چکی تھی۔ لہٰذا ان میں سے ایک بہن کی نیلی ڈاڑھی والے سے شادی کر دی گئی۔
شادی کو ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ نیلی ڈاڑھی والے نے اپنی بیوی کو بتایا کہ کاروبار کے سلسلے میں اسے دوسرے شہروں اور صوبوں کے سفر پر جانا ہے۔ جہاں اسے ڈیڑھ دو ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس کی بیوی یہ خبر سن کر اداس ہو گئی اور تنہائی کے خوف سے پریشان ہوگئی۔ نیلی ڈاڑھی والے نے اسے تسلی دی اور سمجھایا کہ تم اپنے آپ کو حویلی کے کاموں میں مصروف کر لینا، گھومنا پھرنا، علاقے کی سیر کرنا اور چاہو تو اپنی عزیزوں کو یہاں مدعو کر لینا۔ انہیں بھی اس حویلی کی سیر کرانا۔ یہان کے نوادرات دکھانا۔ جس طرح چاہو وقت گزارنا اور خوش رہنے کی کوشش کرنا۔
اور پھر ان نے اپنی بیوی کو چابیوں سے بھرا گچھا تھماتے ہوئے بتایا ’’یہ تمام حویلی کے مختلف کمروں اور گوداموں کی چابیاں ہیں۔ یہ دو چابیاں ان بڑے گوداموں کی ہیں جہاں سونے اور چاندی کے ظروف اور برتن ہیں جنہیں کسی خاص تقریب میں استعمال کیا جاتا ہے اور دیگر جواہرات جڑے نوادرات ہیں ۔ تم چاہو تو اپنے دوستوں کو سب دکھا سکتی ہو، جس کمرے میں چاہو جا سکتی ہو۔ لیکن یہ ایک چھوٹی چابی ایک ایسے کمرے کی ہے جو ان تمام کمروں اور گوداموں کے آخر میں ہے ، اس کمرے میں بالکل مت جانا۔ میں تمہیں خبر دار کرتا ہوں کہ اس کمرے میں مت جانا۔ اگر تم اس کمرے میں چلی گئیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ تم نے میرے غصے کو آواز دی ہے۔ اور تم نہیں جانتی کہ میرا غصہ کتنا برا ہے۔‘‘
بیوی نے اسے یقین دلایا کہ وہ اس کے ہر حکم کی تعمیل کرے گی ۔ سب طرح سے تسلی کر کے نیلی ڈاڑھی والا اپنی گھوڑا گاڑی پر سوار ہو کر سفر پر روانہ ہو گیا۔
اس کی سب سہیلیاں ، عزیز اس نئی دلیں کی دعوت کے بے چینی سے منتظر تھے۔ وہ اس شاندار حویلی کو اندر سے دیکھنے کے لیے بے چین تھے۔ یہ لوگ اس کے شوہر کی موجودگی میں اس حویلی میں قدم رکھنے کی جرات بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس طرح سبھی کو حویلی میں آزادانہ گھومنے پھرے کی آزادی مل گئی تھی۔ انہوں نے حویلی کا چپہ چپہ دیکھ ڈالا ۔ ایک سے ایک خوبصورت کمرے، دالان، فرنیچر، الماریاں ، سجاوٹی اشیا ، سب کچھ بہت حیران کن تھا۔ وہ سب لوگ نہایت بے چینی اور ندیدیپن سے سب کچھ دیکھ رہے تھے اور اپنی اس دوست اور عزیزہ کی قسمت پر رشک کر رہے تھے جو نیلی ڈاڑھی والے کی بیوی تھی۔
وہ خود اتنی دولت دیکھ کر حیران تھی۔ کیونکہ وہ خود یہ سب کچھ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ تجسس انسان کا دشمن ہے۔ وہ بھی اس تجسس کے ہاتھوں مار کھا گئی اور اپنے شوہر کے غصے کو بھول کر اس کمرے کی طرف بڑھتی چلی گئی جس میں جانے سے اس کے شوہر نے اسے منع کیا تھا ۔ اس نے اپنے مہمانوں کی بھی پروانہ کہ اور پچھلے دالان کی سیڑھیاں جو اسی کمرے کی جانب جاتی تھیں اس قدر تیزی سے اترنے لگی کہ اسے لگا کہ وہ سیڑھیوں سے پھسل کر جان سے ہی نہ ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن تجسس ایسی چیز ہے جو انسان کو ہر قسم کے خوف اور خطرے سے بیگانہ کر دیتی ہے۔
جب وہ اس کمرے کے دروازے پر پہنچی تو سے اپنے شوہر کا حکم یاد آگیااور وہ چند لمحے کے لیے ہچکچائی اور سوچا کہ حکم عدولی کے نتیجے میں اسے بہت برے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے تجسس غالب آ گیااور اس نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ چابی نکالی اور درواز ہ کھول ڈالا۔
پہلے تو اسے کمرے کے اندر کچھ دکھائی نہ دیا کیونکہ وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ کھڑکی اور روشن دان سب بند تھے۔ لیکن چند لمحوں بعد وہ اس اندھیرے سے مانوس ہو گئی اور اسے نظر آنا شروع ہو گیا۔ اس نے دیکھا فرش پر جگہ جگہ خون کے دھبے ہیں۔ پھر اس کی نظر دیواروں پر پڑی جہاں بہت سی گردن کٹی عورتوں کی لاشیں لٹک رہی تھیں۔ یہ غالباََ نیلی ڈاڑھی والے کی سابقہ بیویوں کی لاشیں تھیں جن کی گردنیں کاٹ کر وہ وقتاََفوقتاََ یہاں لٹکاتا رہا ہے۔ خوف سے اس کی بیوی کی جان ہی نکل گئی اور کانپتے ہاتھوں سے چابی چھٹ کر فرش پر گر گئی۔
تھوڑی دیر بعد جب اس کے ہوش و حواس بحال ہوئے تو اس فرش پر سے چابی اٹھائی اور دروازے کو تالا لگا دیا۔ وہ سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی تاکہ اپنے حواس پر قابو پا سکے۔ گو کہ یہ بہت مشکل کام تھا کیونکہ وہ بے انتہا خوف زدہ تھی۔ اس نے مٹھی میں دبی چابی کو دیکھا تو اس پر خون کے دھبے تھے۔ اس نے چابی کو دھویا مگر خون صاف نہ ہوا۔ اس نے پھر دھویا ۔۔۔۔ فرش پر ڈال کر رگڑا ، پتھر سے رگڑا۔۔۔ مگر خون صاف نہ ہواکیونکہ وہ جادو کی چابی تھی اگر ایک طرف سے خون صاف ہو جاتا تو دوسری طرف دھبے نظر آنے لگتے تھے۔
اسی رات نیلی ڈاڑھی والا واپس آ گیا۔ اس نے بتا یا کہ اس کا کام جلدی ختم ہو گیا تھا اس لئے وہ جلدی واپس آگیا۔ اس کی بیوی نے ہر طرح سے یہی ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس کی اچانک آمد سے بہت خوش ہے۔
اگلے دن اس نے بیوی سے چابیوں کا گچھا واپس مانگا جو اس نے فوراََ لا کر دے دیا۔ مگر اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے جس سے نیلی ڈاڑھی والے کو صورت ِ حال کا اندازہ ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ چھوٹے کمرے کی چابی غائب ہے۔
’’اس چھوٹے کمرے کی چابی کہاں ہے جہاں میں نے جانے سے منع کیا تھا؟‘‘
’’وہ شاید اوپر میری میز پر ہی رہ گئی ہے۔‘‘ بیوی نے جواب دیا۔
ْ’’فوراََ سے پہلے لر کر آئو۔‘‘ نیلی ڈاڑھی والے نے حکم دیا۔
وہ مزید دیر نہیں کر سکتی تھی ۔ لہٰذا فوراََ چابی لے آئی۔
’’اس پر یہ خون کے دھبے کیسے ہیں ۔۔۔؟‘‘ نیلی ڈاڑھی والے نے پوچھا
’’مم۔۔۔۔مم۔۔۔مجھے کیامعلوم ۔۔۔۔۔۔! مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں !‘‘ وہ خوف سے زرد پڑتی ہوئی بولی۔
’’تمہیں کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔؟‘‘ نیلی ڈاڑھی والا غصے سے چیخا۔’’لیکن مجھے سب معلوم ہے ۔ تم نے میر ی حکم عدولی کی اور کمرے میں چلی گئیں۔ ٹھیک ہے بی بی ۔ تم نے کمرے میں جا کر اپنا مقام بھی انہیں عورتوں کے بیچ میں بنا لیا جن کو تم نے وہاں دیکھا۔‘‘
وہ فوراََ شوہر کے قدموں میں گر گئی اور رو رو کر اپنی غلطی اور حکم عدولی کی معافی مانگنے لگی۔
وہ اتنا روئی اور گڑگڑائی کہ پتھر بھی پگھل جاتا مگر نیلی ڈاڑھی والا پتھر سے بھی زیادہ سخت تھا۔
’’اب تو تجھے ہر حال میں مرنا ہو گا ۔ فوراََ مرنا ہو گا۔‘‘وہ دھاڑا ۔ اس پر ذرا اثر نہیں ہو رہا تھا۔
’’اچھا ! اگر مجھے مرنا ہی ہے !‘‘وہ انسوئوں سے تر چہرہ اٹھا کر بولی!’’تو پھر مجھے تھوڑی سی مہلت دے دو تاکہ میں دعا مانگ لوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔ میں تمہیں پندرہ منٹ کی مہلت دیتا ہوں ۔‘‘ نیلی ڈاڑھی والا بولا۔’’لیکن صرف پندرہ منٹ ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی لڑکی نے اپنی بہن کو بلایا اور بولی!’’میری پیاری بہن۔۔۔ اس حویلی کے سب سے اونچے مینار پر چڑھ جائو ااور دیکھو کیا میرے بھائی آرہے ہیں۔ انہوں نے آج میرے یہاں آنے کو وعدہ کیا تھا اور جیسے ہی وہ نظر آئے انہیں جلدی پہنچنے کا اشارہ کرنا۔
بہن دوڑ کر مینا ر پر چڑھ گئی اور اپنے بھائیوں کی راہ تکنے لگی۔ ’’بہن بہن ! کیا تمہیں کوئی آتا دکھائی دیتا ہے ؟‘‘ وہ تھوڑی تھوڑی دیر میں پوچھتی۔
’’نہیں کچھ دکھائی نہیں دیا۔‘‘بہن بولی’’سوائے گھاس کے میدان اور ریت کے بگولوں کے ، دور تک کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
اسی دوران نیلی ڈاڑھی والا ایک لمبی چمک دار تلوار کھینچ کر باہر آگیا’’فوراََ نیچے آ جائو ، ورنہ میں اوپر آرہا ہوں ‘‘ وہ پوری قوت سے دھاڑا۔
’’بس ایک منٹ ۔۔۔ میں تم سے التجا کرتی ہوں ۔ ایک منٹ اور رک جائو۔‘‘ بیوی بولی ۔ پھر اس نے آہستگی سے بہن سے مخاطب ہو کر کہا! ’’بہن کیا تم نے کسی کو آتے دیکھا۔۔۔؟‘‘
’’کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔۔۔۔‘‘بہن بولی، ’’سوائے اس کے کہ دوپہر ہے دھول اڑرہی ہے اور ہری ہری گھاس لہلہا رہی ہے۔‘‘
’’فوراََ نیچے آجائو۔۔۔۔ ورنہ میں وہیں آتا ہوں ۔‘‘ وہ پھر چلایا۔
’’میں آرہی ہوں ۔۔۔۔‘‘ اس کی بیوی بولی۔ پھر اپنی بہن سے پوچھا: ’’بہن ، بہن کیا کوئی نظر آیا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں ۔۔۔ کچھ نظر آ تو رہا ہے ۔ دھول کا بڑا غبار نظر آ رہا ہے ۔ لگتا ہے کوئی آرہا ہے۔‘‘
’’وہ میرے بھائی ہوں گے۔‘‘
’’نہیں ۔۔۔۔ افسوس ۔۔۔۔ وہ تو بھیڑوں کا ریوڑ ہے ۔۔۔۔ ‘‘ بہن بولی۔
’’تم نیچے نہیں آئو گی ۔۔۔۔؟ وہ پھر دھاڑا
’’ایک منٹ اور دے دو۔۔۔۔!‘‘ بیوی نے پھر التجا کی اور بہن سے پوچھا۔’’ کیا تمہیں کوئی آتا دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں کچھ نظر آرہا ہے۔ گھوڑوں پر سوار دو سپاہی آ رہے ہیں۔ خدا بھلا کرے وہ تو ہمارے بھائی ہیں ۔۔ ادھر ہی آ رہے ہیں۔۔۔۔ میں انہیں جلدی پہنچنے کا اشارہ کرتی ہوں ۔‘‘ بہن خوشی سے چلائی۔
نیلی ڈاڑھی والا غصے سے پاگل ہو کر چلانے لگا۔ تما م حویلی کانپنے لگی۔۔۔ بے چاری لڑکی خوف زدہ ہو کر نیچے آ گئی اور اس کے قدموں میں گر گئی۔ وہ خوف سے کانپ رہی تھی اور آنسو بہارہی تھی۔
’’یہ آنسو تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔۔۔ تمہیں مرنا ہی ہو گا۔‘‘ نیلی ڈاڑھی والے نے اسے بالوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور دوسرے ہاتھ سے تلوار لہرائی۔
لڑکی کو موت سر پر نظر آ رہی تھی ۔ وہ کچھ اور مہلت لینا چاہ رہی تھی۔
’’خدا کے لیے مجھے کچھ منٹ اور دے دو، میں خدا سے اپنی مغفرت کی دعا تو مانگ لوں۔‘‘ لڑکی پھر رونے اور گڑگڑانے لگی۔
’’نہیں۔۔۔۔ بالکل نہیں ۔۔۔۔۔ اب تم اوپر جا کر ہی خدا سے توبہ کرنا۔‘‘ اس نے پھر جھپٹ کر اس لڑکی کا بازو پکڑ لیا ۔ اتنے میں گیٹ پر بڑے زور سے دستک ہوئی۔ نیلی ڈاڑھی والا ایک ہی وار میں لڑکی کا سر تن سے جدا کر دینا چاہتا تھالیکن دستک اتنی زوردار تھی کہ اس کا ہاتھ وہیں رک گیا۔
گیٹ کھلا ہوا تھا جس میں سے دو سپاہی اندر داخل ہوئے۔ انہوںنے اپنی تلواریں کھینچ لیں اور نیلی ڈاڑھی والے کی طرف بڑھے ۔ اس نے انہیں پہچان لیا۔ وہ اس کی بیوی کے بھائی تھے جو محاز پر سے لوٹے تھے۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا۔ لیکن سپاہیوں نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور اپنی تلواریں اس کے جسم میں اتار دیں۔ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا ۔ پھر وہ بہن کی طرف متوجہ ہوئے جو خوف سے نیم مردہ حالت کو پہنچ گئی تھی اور بھائیوں سے ملنے کی بھی سکت نہ تھی۔ بھائیوں نے اسے اٹھا لیا اور گھر لے گئے۔
نیلی ڈاڑھی والے کی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ کوئی رشتہ دار لہٰذا اس کی تمام جائیداد کی وارث اس کی بیوی تھی۔ اس نے کچھ جائیداد اپنے بہن بھائیوں کے نام کر دی اور خود ایک نیک اور شریف انسان سے شادی کر کے ہنسی خوشی رہنے لگی۔