Moon – مُون

moon

مُون

( ایک ایسی ذہین اور بہادر لڑکی کی کہانی جس کا سامنا کسی دوسرے سیّارے کی مخلوق سے ہوجاتا ہے )

                مون صبح صبح تازہ ہوا میں ساحلِ سمندر پر سیر کر رہی تھی ۔ وہ تیرہ چودہ سالہ لڑکی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی ۔ سیر کرنا اس کا روز کا معمول تھا ۔ یہ ساحلِ سمندر ہالینڈ کے ایک دور دراز علاقے میں واقع تھا ۔ مون کا گھر ساحل کے قریب ہی تھا جہاں وہ اپنے ممی ڈیڈی کے ساتھ رہتی تھی ، یہ جگہ کافی دور اُفتادہ اور سنسان تھی لیکن چونکہ ان کو حکومت کی طرف سے بہت سے محافظ ملے ہوئے تھے اس لیے وہاں اُنہیں کوئی ڈر نہ تھا ۔

                مون کے ڈیڈی ’’ ماہر علم الحیوانیات (Zoologist)  تھے اور تقریباً پندرہ سال پہلے پاکستان سے ہالینڈ تحقیق کے لیے آئے تھے اور اب وہاں ایک اہم عہدے پر فائز تھے ۔ تحقیق کے کام کے لیے ہی انہیں حکومت نے ساحلِ سمندر پر گھر دیا تھا تاکہ سمندری حیات کے بارے میں تحقیقات کرنے میں اُنہیں مشکل نہ ہو ۔ حکومت کی جانب سے اُنہیں بہت سی کشتیاں ، چھوٹا جہاز اور ایک آبدوز بھی ملی ہوئی تھی ۔

                مون کا اصل نام تو میمونہ تھا لیکن اس کے ڈچ ساتھی اور ہم جماعت اپنی آسانی کے لیے اس کو مون کہتے تھے ۔ اس کا یہ معمول تھا کہ وہ صبح شام ساحل پر سیر کرتی۔ وہ اپنے ڈیڈی کے ساتھ تیراکی اور کشتی رانی بھی کرتی تھی ۔ تیراکی اور کشتی رانی اس کے ڈیڈی نے خاص طور پر سکھائی تھی کیونکہ ایک بار جب مون چھوٹی سی تھی تو ساحل پر سیپیاں چنتی ہوئی گہرے سمندر کی طرف چلی گئی اور ڈوبتے ڈوبتے بچی تھی ۔ اسی دن سے اس کے ڈیڈی نے اسے تیراکی سکھانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ پھر اب تو اُنہیں رہنا بھی سمندر کے قریب تھا ۔

                ان سب کے ساتھ ساتھ مون پڑھائی میں بہت اچھی تھی اور اس کی ممی نے اس کی دینی تعلیم پر بھی خاصی توجہ دی تھی ، کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان کی بیٹی ذہنی اعتبار سے اپنے وطن اور مذہب سے دور ہو جائے ۔

                ایک دن مون حسبِ معمول شام کی سیر کر رہی تھی ، وہ بے دھیانی میں اپنے گھر سے بہت دور نکل گئی اچانک ایک بے ہنگم شور کی آواز سے وہ چونک گئی تب اسے احساس ہوا کہ وہ گھر سے کتنی دور نکل آئی ہے ۔ پھر اس نے آواز کی سمت نظر دوڑائی تو آسمان پر اسے ایک اُڑن طشتری نظر آئی ۔ وہ تجسّس اور حیرانی سے اسے دیکھنے لگی ۔ پھر اس کی حیرت اور بڑھ گئی جب اس کو وہ طشتری اپنی جانب آتی دکھائی دی ، اگلے چند منٹوں میں ہی وہ اُڑن طشتری زمین پر مون کے سامنے موجود تھی ۔ مون یہ دیکھ کر بوکھلا گئی ، پہلے تو اس نے سوچا گھر کی طرف دوڑ لگا دے ، لیکن چونکہ مون بہت ذہین اور بہادر لڑکی تھی لہٰذا اس نے فوراً فیصلہ کرلیا کہ بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں، جب چند منٹوں میں طشتری آسمان سے زمین پر آسکتی ہے تو اس کا پیچھا کرتے ہوئے گھر بھی پہنچ سکتی ہے ، چنانچہ وہ رک کر انتظار کرنے لگی کہ اب کیا ہوتا ہے ۔

                اس طشتری کا انجن بند ہوچکا تھا ، پھر اس کا دروازہ کھلا جس میں سے دو انسان نما چیزیں برآمد ہوئی، جن کو دیکھ کر مون کی چیخ نکلنے لگی تھی لیکن خوف کے باعث حلق میں ہی رہ گئی ۔ زرد رنگ کی دو انسان نما چھپکلیاں اُس کے سامنے تھیں جیسے چھپکلی کو انسان بنانے کی کوشش کی گئی ہو ۔ اُنہوں نے جسم پر صرف نیکر پہن رکھی تھی ۔ مون نے کمپیوٹر گیم کھیلتے ہوئے بارہا اس قسم کے انسان دیکھے تھے لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ ان سے حقیقت میں بھی واسطہ پڑ جائے گا ۔

                جب اس نے ان عجیب الخلقت انسانوں کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا تو خوف سے بے ہوش ہوگئی ، آخر تھی تو بچی ہی ، اس سے پہلے کہ وہ زمین پر گر جاتی ایک چھپکلی نما انسان نے اسے پکڑ لیا اور اس زور سے جھٹکا دیا کہ وہ ہوش میں آگئی ۔ مون نے دیکھا کہ وہ دونوں اسے اپنی طشتری کی جانب لے جارہے ہیں ، اس نے جھٹکے سے اپنے بازو چھڑائے اور چیخ کر بولی ، ’’ تم لوگ کون ہو اور مجھے کہاں لے جارہے ہو ؟ ٰ‘‘

ان میں سے ایک چھپکلی نُما انسان نے بولنے کے لیے منہ کھولا تو اس میں سے مینڈک کے ٹرّانے جیسی آواز نکلی جس کو سن کر مون اور خوفزدہ ہوگئی۔ پھر اس چھپکلی نے اشارے سے سمجھایا کہ ڈرو نہیں ہم تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔ ہم کسی دوسرے سیّارے سے آئے ہیں ، تم خاموشی سے ہمارے ساتھ چلو تو ہم تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے ۔

                مون نے ان سے آزاد ہونے کے لیے بہت ہاتھ پائوں مارے لیکن اُنہوں نے اسے اُٹھا کر طشتری میں ڈال دیا اور وہ اُڑن طشتری نما جہاز اسٹارٹ ہوگیا اور اوپر آسمانوں میں پرواز کرگیا ۔ اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ مون کو متلی ہونے لگی اور وہ پھر بے ہوش ہوگئی۔

                مون کو جب ہوش آیا تو وہ کسی اور ہی دنیا میں تھی ۔ وہ بڑا عجیب سا کمرہ تھا جوکمرے سے زیادہ لیبارٹری لگ رہا تھا ۔ مون کو لگا وہ مخلوق اسے یہاں تجربہ کرنے کے لیے لائی ہے ۔ جس جگہ وہ لیٹی تھی وہ کافی آرام دہ تھی، وہ ہر ایک چیز کو حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔

                اس کو ہوش میں دیکھ کر ایک اور چھپکلی نما انسان اندر داخل ہوا اور مشروب سے بھرا ایک گلاس میز پر رکھ کر چلا گیا ۔ پہلے والی چھپکلیوں اور اس میں صرف نیکر کے رنگ کا فرق تھا ۔

                مون کو وہاں بہت وحشت ہو رہی تھی اور کچھ متلی سی بھی ہو رہی تھی۔ اس کو اپنے ممی ڈیڈی کی فکر تھی جو اس کو تلاش کر رہے ہوں گے ، سارا سمندر کھنگال مارا ہوگا وہ تویہی سمجھ رہے ہوں گے کہ میں سمندر میں ڈوب گئی ۔

                اسے وقت کا بھی کچھ پتا نہیں چل رہا تھا ، نجانے وہ کتنی دیر یا کتنے دن بے ہوش رہی ۔ وہاں نہ کوئی گھڑی تھی نہ ہی کوئی کیلنڈر۔ اس کو پھر متلی محسوس ہونے لگی تو اسے مشروب کا خیال آیا ۔ مون اسے پینا تو نہیں چاہتی تھی لیکن وہ بہت تھکی ہوئی تھی اور اسے پیاس بھی بہت لگ رہی تھی کیونکہ وہ ساحلِ سمندر پر بڑی دیر تک سیر بھی تو کرتی رہی تھی۔ اس نے گلاس اُٹھا کر سونگھا تو اسے لیموں کی فرحت بخش خوشبو کا احساس ہوا جس سے اس کی پیاس اور بھڑک اُٹھی ، وہ غٹاغٹ اس مشروب کو پی گئی ۔ اس کو بہت سکون ملا ۔ متلی بھی دور ہوگئی ۔

                مشروب پی کر اس کے حواس کچھ بحال ہوئے تو اس نے سوچا کہ اس طرح کی متلی تو سمندری سفر کے دوران ہوتی ہے، توکیا وہ اس وقت سمندر میں ہے ؟ مگر کسی بھی دوسرے سیّارے پر تو کوئی سمندر نہیں ہے ۔اب تک کی تحقیقات تو یہی کہتی ہیں !

                اس نے اُٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا مگر کہیں پر کوئی دروازہ یا کھڑکی نظر نہ آئے تمام دیواریں بالکل ہموار تھیں ۔ نہ یہ پتا چلا کہ وہ انسان جیسی چیز کدھر سے آئی تھی ، دروازہ کھلتا ہوا تو اس نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ۔ یہ سب کچھ اسے خواب سا لگ رہا تھا ۔

                ’’ بھلا ایسا ہوسکتا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے کسی دوسرے سیّارے پر پہنچ جائے ، ‘‘ مون نے سوچا ، ’’ خلاء میں سفر کرنے کے لیے تو بہت سخت ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے اور مجھ جیسی لڑکی تو ہرگز بھی خلاء کا سفر نہیں کرسکتی ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ سب کچھ کیا ہے۔ یہ عجیب الخلقت انسان کہاں سے آئے ہیں ؟ ایسے انسان یا حیوان تو دنیا کے کسی گوشے میں بھی نہیں پائے جاتے ۔ ‘‘

                مون بالکل ٹھیک سوچ رہی تھی کیونکہ اس کے ڈیڈی جو علم الحیوانات کے ماہر تھے وہ تمام دنیا کی مخلوق سے واقفیت رکھتے تھے اسی لیے مون کو بھی ان سب چیزوں کے بارے میں کافی علم تھا ۔ اسی سوچ میں اسے مزید کئی گھنٹے گزر گئے ۔

                کچھ دیر بعد دروازہ کھلا ، مون چونک گئی ، وہی پہلے والا انسان ( مون کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ااسے انسان سمجھے یا جانور) اندر آیا اس کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی ۔ وہ ٹرے کو میز پر رکھ کر جانے کے لیے مُڑا ۔ مون بھاگ کر اس کے سامنے آگئی اور اس سے التجا کرنے والے انداز میں بولی ُ ’’ خداکے لیے مجھے بتائو تم لوگ کون ہو اور مجھے یہاں کیوں قید کر رکھا ہے ، میں بھلا تمہارے کس کام آسکتی ہوں ۔ پلیز !   مجھے جانے دو میرے ممی ڈیڈی مجھے تلاش کر رہے ہوں گے ۔ ‘‘

                وہ انسان چپ رہا تو مون کو غصہ آگیا وہ بولی !  ’’ مجھے معلوم ہے یہ کوئی اور سیّارہ نہیں ہماری اپنی دنیا ہے ، کیونکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا اعتقاد ہے کہ کسی اور سیّارے پر کوئی جاندار مخلوق نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اس کا ذکر ہماری مقدّس کتاب ( قرآن مجید ) میں ضرور ہوتا ، تم لوگ جھوٹ بولتے ہو ، بتائو تم لوگ کون ہواور یہ کونسی جگہ ہے ؟ ‘‘

                مون چپ ہوئی تو اس انسان نما مخلوق نے بولنے کے لیے منہ کھولا ، جس میں سے مینڈک کے ٹرّانے کی آوازیں نکلنے لگیں جو مون کو بالکل سمجھ نہ آئیں تو وہ پھر غصّے سے چلائی !   ’’ جس قوم پر اللہ کی لعنت اور عذاب نازل ہوتا ہے تو وہ بالکل تم جیسی مخلوق میں تبدیل ہوجاتی ہے، جن کی شکل اور آواز جانوروں جیسی ہوجاتی ہے ، تم لوگ اللہ کی معتوب اور بھٹکی ہوئی قوم ہو ……….  ‘‘ ۔ وہ شخص کچھ نہ سمجھتے ہوئے وہاں سے چلا گیا ۔

                مون کو یہ تو یقین ہو ہی گیا تھا کہ وہ لوگ اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔ اس نے سوچا ان حیوانوں کے سامنے گڑگڑانے کا کوئی فائدہ نہیں جو میری بات ہی نہیں سمجھتے ، نہ ہی یہاں سے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے عجیب بھول بھلیاں ہے یہ جگہ ، تو پھر کیوں نہ اپنے خدا سے دعا مانگوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے ، جو میری بات بھی سمجھتا ہے ، وہی کوئی راستہ نکالے گا ۔

                مون نے رو رو کر اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ ، ’’ اے اللہ تو سب کی مُشکلیں آسان کرتا ہے ، میری بھی مدد فرما ، مجھے ان حیوانوں کے چنگل سے نجات دلا دے اور میرے ممی ڈیڈی سے ملا دے ۔ ‘‘ وہ بہت دیر تک اسی طرح دعا کرتی رہی ۔ اس نے کھانے کو بھی ہاتھ نہ لگایا اور اسی طرح سوگئی ۔

                مون کی ہمیشہ صبح صبح ہی آنکھ کھل جایا کرتی تھی ۔ آج جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے اندازہ نہ ہوا کہ کیا وقت ہوا ہے ، کیونکہ کہیں سے سورج کی روشنی دکھائی نہ دیتی تھی ۔ وہ بستر پر بیٹھی وقت کا اندازہ لگا رہی تھی کہ ایک دم اس کے بستر کو زور کا جھٹکا لگا اور وہ نیچے گرگئی ، زمین مسلسل ہل رہی تھی ۔ وہ سمجھی کہ شاید زلزلہ آگیا ہے ۔ وہ دروازے کی تلاش میں دیوار کے پاس پہنچی اور اسکو ٹٹول کر دیکھنے لگی کہ اچانک دروازہ خود بخود کھل گیا ۔ پھر اسے پتا چلا کہ یہ تو آٹومیٹک دروازہ ہے ۔ یقیناً قدرت اس کی مدد کر رہی تھی ۔

                وہ دروازے سے باہر نکلی تو آگے ایک لمبی گیلری تھی ، وہ تیز تیز چلتی گیلری سے باہر آئی تو سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں ، وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی تو اسے آسمان نظر آیا ، تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ تو جہاز کا عرشہ ہے گویا اس کا خیال درست تھا کہ وہ سمندر پر ہے اسی لیے اسے متلی محسوس ہوئی تھی ۔

                بحری جہاز کو مسلسل جھٹکے لگ رہے تھے ، ایک بھگدڑ سی مچی ہوئی تھی اور وہ چھپکلی نما انسان اپنی جان بچانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے ۔ اپنی پریشانی میں مون کو کسی نے بھی نہ دیکھا ۔ مون نے سوچا یہ ظالم انسان جو دوسروں کو تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں خود اندر سے کتنے بزدل اور ڈرپوک ہوتے ہیں ، ذرا سی مصیبت سے ایسے گھبرا جاتے ہیں کہ ان کی جان پہ بن آتی ہے۔ خیر مون کے لیے تو یہ فرار ہونے کا اچھا موقع تھا ۔

                وہ بہت بڑا جہاز تھا جو اُنہوں نے ایک جزیرے کی آڑ میں چھپا رکھا تھا ۔ اس جہازکے عرشے پر کئی ہیلی کاپٹر اور وہ اُڑن طشتری بھی کھڑی تھی ، بڑی بڑی گنز بھی فٹ کی ہوئی تھیں تاکہ کسی حملے کی صورت میں جوابی کارروائی کی جاسکے ۔ مون نے دیکھا جہاز کے عرشے پر بہت سی لائف بوٹس بھی لٹک رہی تھیں ، اس نے ایک لائف بوٹ کھول کر سمندر میں پھینکی پھر اس میں چھلانگ لگا دی ۔ وہاں سے فرار کا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا ۔ وہ کشتی میں بیٹھ کر تیز تیز چپو چلانے لگی ۔

                ابھی وہ کچھ دور ہی گئی تھی کہ اوپر سے ایک جہاز گزرا جس نے بحری جہازپر ایک بم گرایا ۔ بم گرنے سے ایک زوردار دھماکہ ہوا اور جہاز کا ایک حصّہ تباہ ہوگیا ۔ پانی میں چھپاکا بڑی دور تک ہوا اور مون کی کشتی اُلٹ گئی ، وہ کشتی سے الگ ہوگئی لیکن بڑی تیزی سے تیر کر اس نے پھر کشتی کو پکڑ لیا ، وہ اتنی گھبرا گئی تھی کہ کشتی کو سیدھا بھی نہ کرسکی اور اسی کے سہارے تیرتی رہی ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اب جہاز نے کوئی اور بم گرایا تو یہ کشتی بھی اس سے چُھوٹ جائے گی اور وہ بچ نہ سکے گی ۔

                اتنے میں اوپر ایک ہیلی کاپٹر بھی آگیا ، مون نے بمشکل ایک ہاتھ ہلا کر اسے اپنی جانب متوجّہ کرانا چاہا ۔ اس نے سوچا جوکوئی بھی ہے اسے اس مشکل سے تو نکال ہی لے گا ۔ ہیلی کاپٹر میں موجود لوگوں نے اسے دیکھ لیا تھا وہ بالکل اس کے اوپر آگیا ، اس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو ہیلی کاپٹر کے دروازے پر اُسے اپنے ڈیڈی کی شکل نظر آئی ، اسے یقین نہ آیا ، اس کے ڈیڈی اس کی تلاش میں وہاں تک پہنچ چکے تھے، اُنہوں نے اوپر سے رسی کی سیڑھی پھینکی ، جس کو پکڑ کر مون اوپر چڑھ گئی ، وہ تھکن ، بے یقینی اور خوشی کی ملی جلی کیفیات سے دوچار تھی ، ہیلی کاپٹر میں پہنچتے ہی بیہوش ہوگئی ۔

                جب اس کو ہوش آیا تو اپنے ممی ڈیڈی کو سامنے پایا ، وہ ممی سے لپٹ گئی اور بچوں کی طرح زور زور سے رونے لگی ، ممی بھی رونے لگیں ، اُنہیں یقین نہ تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو دوبارہ زندہ سلامت دیکھ پائیں گی ، ڈیڈی کی آنکھ میں بھی خوشی کے آنسو تھے۔ ’’ڈیڈی وہ لوگ کون تھے جنہوں نے مجھے اغوا کیا ؟ ‘‘ مون نے پوچھا ۔

’’ بیٹا ، وہ ایک خطرناک گروہ تھا جو یہاں چھپ کر غیر قانونی کام کر رہا تھا، ‘‘ ڈیڈی بولے ، ’’ اور حکومت کو دھوکہ دینے کے لیے بھیس بدل کر کام کرتے تھے۔ ہم خدا کے بہت شکرگزار ہیںکہ تم بچ گئیں ، اور اس نے ہمیں راستہ دکھایا کہ ہم تمہیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے اور بیٹا حکومت تمہاری بہت شکرگزار ہے کہ تمہاری بدولت ایک خطرناک گروہ کو پکڑا گیا ہے ۔ ‘‘

’’ لیکن ڈیڈی وہ تو بہت عجیب الخلقت لوگ تھے ، انسان تھوڑی تھے ، ان کی آوازیں بھی جانوروں جیسی تھیں جو کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا۔‘‘

                ’’ ہاں بیٹا ، یہ اُن انسانوں کا بہروپ تھا تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ کسی دوسرے سیّارے کی مخلوق ہیں ۔ اُنہوں نے ایسا خول اپنے جسم پر چڑھایا ہوا تھا کہ جانور دکھائی دیں اور ان مخصوص لوگوں کے گلے کی ’’ فونو سرجری کروا کر ان کی آوازیں بھی بدل دی گئی تھیں تاکہ کوئی ان کی بات نہ سمجھ سکے بلکہ سننے والا خوفزدہ ہوجائے اور اگر کبھی یہ لوگ پکڑے جائیں تو ان کا راز فاش نہ ہوسکے ۔ درحقیقت بیٹا جن انسان نما لوگوں کو تم نے دیکھا تھا وہ تو ملازم لوگ تھے ، اصل لوگ تو کئی اور تھے جو سامنے نہیں آتے تھے ۔ ان بے چاروں کا غیر انسانی حُلیہ اس لیے بنایا ہوا تھا کہ جو بھی ان کو دیکھے کسی اور سیّارے کی مخلوق سمجھ کر ڈر جائے اور کسی سے ذکر بھی نہ کرے اور اگر کرے گا بھی تو ظاہر ہے کہ ان کی بات کا یقین کون کرے گا ۔ اس طرح بہت عرصے سے یہ لوگ سمندر کے بیچ میں بیٹھ کر غیر قانونی کام کر رہے تھے اور کوئی انہیں پکڑ نہ سکا کیونکہ ایک تو اس طرف کوئی جاتا ہی نہ تھا اور اگر تمہاری طرح کوئی غلطی سے چلا بھی جاتا تو یہ مخلوق وہاں گشت کرتی رہتی تھی ، یہ ان کو اپنے عجیب حلیے کے باعث وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیتے ۔ ‘‘

’’ لیکن ڈیڈی اُنہوں نے مجھے کیوں اغوا کیا ، مُجھ سے اُنہیں کیا خطرہ تھا!  ‘‘

’’ بیٹا اُن کو آپ سے نہیں مجھ سے خطرہ تھا ، میں جو سمندر کے بیچ میں بیٹھ کر کام کر رہا ہوں، ہمیں اکثر سمندر کی تہہ تک جانا پڑتا ہے۔ اُنہیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا تھا کہ کسی دن ہماری وجہ سے ان کا راز فاش نہ ہو جائے ۔ مجھے وہ بہت بار دھمکیاں دے چکے تھے کہ میں اپنا کام بند کرکے یہاں سے چلا جائوں ورنہ اچھا نہیں ہوگا ، ہم نے ان کا کھوج لگانے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہے ۔ میرے ساتھ ہر وقت مُسلّح گارڈز ہوتے ہیں اس لیے مجھ تک تو وہ نہ پہنچ سکے البتہ تم ان کے ہاتھ لگ گئیں ۔ پھر اُنہوں نے دھمکی دی کہ اب بھی اگر میں نے یہ جگہ نہ چھوڑی تو وہ تمہیں زندہ نہ چھوڑیں گے ۔ ہم نے تمہیں ہر جگہ تلاش کیا ، پولیس کے اور نیوی کے جہازوں نے سارا علاقہ چھان مارا لیکن کچھ پتا نہ چلا ، تمہاری ممی رو رو کر دعا کرتی رہیں ، وہ جب سوئیں تو اُنہوں نے خواب میں دیکھا کہ تم سمندر کے درمیان کسی جزیرے پر ہو اور مدد کے لیے بلا رہی ہو ۔ اس کے بعد ہم نے اس جزیرے کی تلاش شروع کردی ۔ ہمارا پہلا جہاز جب جزیرے کے قریب پہنچا تو اُنہوں نے اسے مار گرایا جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ وہاں پر کچھ ہے ، پھر پولیس نے بمبار جہاز بھیجا ، لیکن اُنہوں نے جہاز کو نشانہ نہیں بنایا کیونکہ تم وہاں تھیں لہٰذا پہلے اُنہوں نے جہاز کے قریب بم پھینکا تاکہ وہاں افراتفری پھیل جائے اور تمہیں وہاں سے نکلنے کا موقع مل جائے ۔ جب اُنہوں نے تمہیں وہاں سے نکلتے دیکھ لیا تب اُنہوں نے جہاز کو نشانہ بنایا ۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ ان لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا ، کچھ لوگ مارے گئے اور باقی گرفتار ہوگئے اور اب حکومت تمہیں انعام دینا چاہتی ہے کیونکہ تمہاری بدولت ہی وہ اتنا خطرناک گروہ پکڑنے میں کامیاب ہوئے اس کے علاوہ تم نے جس ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اس کے لیے بھی تمہارا انٹرویو کرنے کے لیے اخباری نمائندے باہر بے چینی سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں ، کہو تو اُنہیں بلا لیا جائے ؟ ‘‘

’’ نہیں ڈیڈی پہلے میں خدا کے حضور سجدۂ شکر بجا لانا چاہتی ہوں ، جس نے نہ صرف میری جان بچائی بلکہ انعام سے بھی نوازا ۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.