ایک دن خرگوش دریا پر مچھلیاں پکڑنے گیا ،اسکا بڑا دل چاہ رہا تھا کہ آج دریا پر جا کر چھوٹی چھوٹی پیارپیاری رنگ برنگی مچھلیوں کا ناشتہ کیا جائے۔
دریا کے کنارے بیٹھ کر اس نے مچھلی کے شکار کا سامان تھیلے سے نکالا،چھڑی پر ڈور باندھی،دور پر کانٹا باندھا،کانٹے پر چارہ لگایا اور بیٹھنے کے لئے کوئی مناسب جگہ ڈھونڈنے لگا۔دریا کے کنارے پر اسکو ایک مٹیالا سا درخت کا پرانا تنا تیرتا ہوا نظر آیا،اس نے اسی تنے پر جاکر بیٹھنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں سے ڈور پانی میں دور تک پھینکی جا سکے۔
وہ ابھی تنے پر جاکر بیٹھا ہی تھا کہ اس میں حرکت ہوئی اور اس نے چلنا شروع کر دیا۔اس کے بعد اس نے اپنا منہ پانی سے باہر نکالا اور خرگوش کو دیکھ کر ہنسنے لگا،اسکا خوفناک جبڑا نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔وہ ایک بہت بڑا اور خطرناک مگر مچھ تھا، پھر وہ تیرتا ہوا دریا کے درمیان چلا گیا۔
’’اوہ ۔۔۔۔۔مگر مچھ صاحب آپ۔۔۔۔؟معاف کیجئے گا میں نے آپ پر بیٹھنے کی گستاخی کی!مگر یہ آپ مجھے کہاں لئے جا رہے ہیں۔۔؟‘‘
خرگوش خوفزدہ ہو کر بولا۔
’’وہا ں دریا کے دوسرے کنارے پر میرا گھر ہے جہاں میں نے سات انڈے دے رکھے ہیں،میرے بچوں کو تمہارا گوشت بہت پسند آتا،نرم نرم بغیر ہڈی کا گوشت۔۔۔۔۔! لیکن چونکہ ابھی انڈوں میں سے بچے نہیں نکلے تو فی الحال میں ہی تمہیں کھاؤنگا۔‘‘مگر مچھ خرگوش کو اپنے غار میں لے گیا۔
’’ اوہ مسٹر مگر مچھ۔۔۔۔۔۔مہربانی فرما کر آپ مجھے نہ کھائیں میں آپ کے انڈوں کی دیکھ بھال کرونگا، جب تک ان میں سے بچے نہ نکل آئیں میں انکی نگرانی کرونگا۔آپ میرا یقین کریں میں بہت اچھی نرسنگ کرتا ہوں ،بس آپ مجھے اپنے انڈوں حفاظت اور دیکھ بھال کا کام سونپ دیں۔‘‘ خرگوش مگر مچھ کے پاؤں ہی پڑ گیا تو اسکو خرگوش کی جان بخشی کرنی پڑی۔
غار کے اند رایک چھوٹی سی کھوہ میں اس نے اپنے انڈے چھپا رکھے تھیتاکہ کسی دشمن کی نظر نہ پڑے،اس نے خرگوش کو اپنے انڈے دکھائے اور کہا؛
’’ٹھیک ہے بنی۔۔۔۔آج سے تم میرے انڈوں کے نرس ہو،انکی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کرنا،کیونکہ میں تو زیادہ تر باہر دریا کے دورے پر ہی رہتا ہوں اسلئے مجھے انکی بہت فکر رہتی ہے۔۔۔۔! چلو آج تمہیں آزما کے دیکھ لیتا ہوں۔۔۔!‘‘
’’ بالکل جناب! آپ بالکل بے فکر ہوجائیں میں ہوں نا۔۔۔۔! میں انکی ایسی دیکھ بھاک کرونگا جیسے ایک ماں کرتی ہے۔‘‘یہ کہہ کر خرگوش انڈوں کے اوپرایسے بیٹھ گیا جیسے مرغی اپنے انڈے سیتی ہے۔مگر مچھ مطمئن ہوکر چلا گیا۔
ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ خرگوش کو بھوک لگنے لگی۔مگر مچھ کی وجہ سے وہ مچھلیوں کا نا شتہ بھی نہیں کر سکا تھا،اور اب اسکو دور دور تک کھانے کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔اچانک اسکا خیال انڈوں کی طرف گیا۔۔۔۔مگر مچھ کے سات موٹے موٹے انڈے دیکھ کر اکے منہ میں پانی آگیا۔اس نے ایک انڈا اٹھایا ،اس میں سوراخ کیااور منہ لگا کر پی گیا۔انڈا کافی بڑا تھا اس کا خوب پیٹ بھر گیا۔
پیٹ بھر کے وہ پھرا نڈوں پر بیٹھ گیااور مگر مچھ کا انتظار کرنے لگا،اور سوچنے لگا کہ اب جب مگر مچھ آ کر امنے انڈے دیکھے گا تو اسکو کیا جواب دیگا۔مگر دوسرے ہی لمحے اس نے اس فضول خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیاکہ جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا،مجھے اس بڈھے مگر مچھ ڈرنے کی ضرورت نہیں، مجھے اب آرام کرنا چاہیئے۔اس نے اپنے پیر انڈوں پر پھیل لیئے اور گہری نیند سو گیا۔
شام کو جب مگر مچھ لوٹا اور خرگوش کو سوتا پایا تو اسکو غصہ آگیا،وہ زور سے چلایا؛
’’اوئے خرگوش ۔۔۔۔۔! تم نے خاک میرے انڈوں کی حفاظت کی۔۔۔۔تم تو خود سوئے پڑے ہو۔۔۔؟‘‘
خرگوش چونک کر اٹھ بیٹھا اور بولا؛
’’جناب میری آنکھیں ضرور سو رہی تھیں۔۔۔۔۔مگر میرے کان پوری طرح جاگ رہے تھے۔۔۔۔!‘‘
’’ میرے انڈے کہاں ہیں ۔۔۔؟‘‘ مگر مچھ اپنی خطرناک دم زمین پر مار کر پوچھا،خرگوش تھوڑا سا خوفزدہ ہو اکہ اب وہ اپنے انڈے گنے گا،لیکن خوف پر قابو پاکر بولا؛
’’ یہ رہے جناب ۔۔۔۔۔سب کے سب موجود ہیں۔۔۔!‘‘ خرگوش چالاکی سے بولا؛’’ ٹہریں میں آپکو گن کر بتاتا ہوں،ایک ،دو،تین ، چار،پانچ،چھہ اوریہ سات۔۔۔پورے سات انڈ ے ہیں۔۔۔!‘‘
مگر مچھ خوش ہوگیااور اپنی خوفناک بتیسی باہر نکال کر ہنستے ہوئے بولا؛
’’اسکا مطلب ہے کہ تم نے بہت اچھی طرح انکی حفاظت کی ہے،اب ذرا مجھے باہر لاکر ایک ایک انڈہ چیک کراؤ۔۔۔میں انڈے خود گننا چاہتا ہوں۔‘‘
خرگوش جلدی سے ایک انڈہ لے آیا،مگر مچھ نے اسکو سونگھا، ہلا کر دیکھا پھر کہا اب اسکو رکھ دو اور دوسرا لاؤ،دوسرا بھی اسی طرح چیک کیا اور واپس کردیا۔جب چھ انڈے چیک کر چکا تو خرگوش نے سوچا اب یہ ساتواں انڈہ مانگا ۔۔۔۔۔! خرگوش سوچنے لگا لہ اب کیا کروں۔۔۔؟
’’ جلدی کرو۔۔۔۔۔ساتواں انڈہ لاؤ۔۔۔!‘‘ مگر مچھ چیخا
خرگوش کھوہ میں گیا اور پہلا انڈہ دوبارہ اٹھا لایا۔اسے بھی مگر مچھ نے سونگھ کر چیک اور واپس کردیا۔۔۔۔۔اسے پتا ہی نہیں چلا کہ یہ وہی ہے۔پھر مگر مچھ بولا؛
’’ تم نے واقعئی انکا بہت اچھی طرح خیال رکھا ہے۔۔۔۔ورنہ آج میں تمہیں کھا جاتا،اب آئندہ بھی اسی طرح خیال رکھنا۔‘‘ اگلی صبح مگر مچھ پھر دورے پر نکل گیا۔خرگوش سارا دن اسکی واپسی کا انتظار کرتا رہا،کیونکہ اسکی اجازت کے بغیر وہ انڈوں کے پاس سے نہیں اٹھ سکتا تھا۔اب اسکا بھوک سے برا حال ہو رہا تھا، اس نے سوچا بہت لحاظ کرلیا مگر مچھ۔۔۔۔۔اب اسکی خاطر میں بھوکا تو نہیں مر سکتانا۔۔۔۔۔جبکہ میری ناک کے نیچے اتنا لذیذ کھانا موجود ہوتو مجھے بھوکا مرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سوچ کر اس نے دوسرا انڈا بھی نکال کر کھا لیااور اسکا چھلکا پہلے کی طرح غار کے پیچھے پھینک دیا،پھر آرام سے ٹانگیں پھیلا کر سو گیا۔
رات کو جب مگر مچھ آیا تو اس نے انڈے چیک کرنے کے لئے مانگے ،خرگوش نے جلدی جلدی سارے انڈے چیک کروا دیئے، پانچ تو پورے اور دو دوبارہ چیک کرادیئے ، مگر مچھ کو ذرا بھی شک نہیں ہوا اور وہ مطمئن ہو کر سو گیا۔
اب تو ہر روز یہی ہوتا کہ خرگوش بھوک سے بے حال ہو کر ایک انڈہ کھا لیتا اور وہی وہی انڈے دوبارہ چیک کرادیتااور وہ مطمئن ہو کر سو جاتا۔
آخر میں صرف ایک انڈہ رہ گیا۔۔۔خرگوش نے مسکراتے ہوئے سوچا کہ اب اس ایک انڈے کو ہی سات بار چیک کرانا پڑیگا۔
حسبِ عادت جب رات کو مگر مچھ گھر لوٹا تو پوچھا؛
’’میرے انڈے کہاں ہیں۔۔۔؟‘‘
’’ یہ رہے جناب۔۔۔۔پورے سات انڈے،میرے نیچے ہیں۔‘‘خرگوش فرمانبرداری سے بولا
’’ آج جب میں دریا کے اس کنارے پر گیا تو مجھے لومڑ مل گیا۔۔۔۔۔اس نے بتایا کہ خرگوش کو انڈے بہت شوق سے کھاتا ہے،لہٰذا میں نے سوچا کہ آج میں اپنے سب انڈوں پر نشان لگا دوں۔۔۔۔اگر کوئی کم ہوا تو میں تمہیں کھا جاؤنگا۔‘‘
’’آہابنی۔۔۔۔۔تم خود کو بہت چالاک سمجھتے تھے۔۔۔۔۔یہ بوڑھا مگر مچھ بھی کم چالا ک نہیں ہے۔۔۔۔اب تم کیا کروگے۔۔۔؟‘‘ خرگوش سوچ میں پڑگیا۔
’’ اب تو برے پھنسے۔۔۔۔۔!‘‘خرگوش نے پھر سوچا ،اتنا خوفزدہ وہ زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا جتنا اب ہو رہا تھاکیونکہ وہ پوری طرح مگر مچھ کے قبضے میں تھااور سامنے دریا تھا۔پھر بھی اس نے جی کڑا کر کے کہا؛
’’ ٹھیک ہے جناب۔۔۔۔! آپ اپنے انڈوں پر نشان لگا کر اطمینان کر لیجئیاور آئندہ لومڑ کی باتوں پر دھیان نہ دیجئے گا ہو تو یونہی افواہیں پھیلاتا پھر تا ہے۔۔۔۔میں اسے ضرور سبق سکھاؤنگا۔‘‘
’’ میرا پہلا انڈہ لیکر آؤ تاکہ میں اس پر نشان لگاؤں۔۔۔!‘‘ مگر مچھ نے کہااور خرگوش وہ اکلوتا انڈہ لے کر کھو سے باہر آیا اور کانپتے ہاتھوں سے مگر مچھ کو پکڑا دیا۔مگر مچھ نے کیچڑ سے انگلی بھری اور انڈے پر نشان لگا کر خرگوش کو واپس دے کر کہا؛
’’اسے لے جاؤ اور دوسرا انڈہ لے آؤ۔۔۔!‘‘خرگوش بھاگ کرکھوہ میں گیا، جلدی جلدی کیچڑ کا نشان مٹایا ،اچھی طرح صاف ستھرا کر کے اسے دوبارہ لے آیا
’’ہوں ں ں۔۔۔۔۔۔۔نمبر دو۔۔۔!‘‘ مگر مچھ نے اس پر بھہ نشان لگایا اور خرگوش کو واپس کر کے تیسرا انڈہ لانے کو کہا،اسے بالکل شک نہیں ہوا۔
اسی طرح کمینے خرگوش نے ساتوں انڈوں پر نشان لگوا لئے۔مگر مچھ نے خوشی خوشی ساتواں انڈہ بھی نشان لگا کر اسکے حوالے کردیا۔ اپنے تئیں ساتوں انڈے واپس کھوہ میں رکھ کر خرگوش بولا؛
’’جناب وہ لومڑ جو میرے بارے میں نہ جانے کیا بکواس کرتا پھر رہا ہے میں اسے بتانا چاہتا ہوں کہ میں اسکے بارے میں کیا سوچتا ہوں۔۔۔! کیا آپ مجھے تھوڑی دیر کیلئے چھٹی دیں گے۔۔۔؟‘‘
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔! تم نے اپنا کام بہت اچھے طریقے سے کیا ،تم جا کر اسے بتا سکتے ہو۔میں تمہیں وہاں چھوڑ آتا ہوں،اتنے اپنے انڈوں کی میں خود حفاظت کر لوںگا۔‘‘
مگر مچھ خوشی خوشی بولا اور خرگوش کو اپنی کمر پر بیٹھا کر دوسرے کنارے پر چھوڑ آیا۔وہاں پہنچ کر خرگوش نے انتظار کیا کہ دیکھو واپس پہنچ کر مگر مچھ کے کیا تاثرات ہوتے ہیں۔۔۔!
مگر مچھ جب اپنے غار میں واپس پہنچا تو اسکی ایک خوفناک دھاڑ کی آواز آئی۔۔۔۔۔اور خرگوش کو اندازہ ہوگیا کہ اب مگر مچھ اپنے انڈے دیکھ چکا ہے لہٰذا وہ ہواں سے سر پر پیر رکھ کر بھاگا اور دوبارہ کبھی اس دریا پر نہیں گیا،جب تک کہ اس نے سن نہیں لیا کہ مگر مچھ یہ دریا چھوڑ کر کہیں اور جا چکا ہے۔اسے پورا یقین تھا کہ اب مگر مچھ کبھی کسی خرگوش کو اپنے انڈوں کی دیکھ بھال کیلئے نہیں رکھے گا۔
Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.
View all posts by tasneem