ایک بار سردیوں کے موسم میں لومڑ نے اپنے با غیچے میں گا جریں اور شلغم بوئے۔موٹی موٹی رس بھری سرخ سرخ گا جریںدیکھ کر لومڑ خوش ہوگیا۔اس نے تمام گاجریں اور شلغم کھود کر نکالے اور اپنے پرانے شیڈ میں جمع کر لیئے جو اسکے گھر کی پچھلی سائیڈ پر تھا جہاں وہ اپنا پرانا سامان رکھتا تھا۔لومڑ نے سوچا اتنی گاجریں اور شلغم ہیں انہیں میں اسٹور کر لوںگا اورانکا سوپ بنا بنا کر پیا کرونگا۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس بار سردیاں خوب گزریں گی۔
اور ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ اسکی رس بھری گاجروں کی خوشبو بریر خرگوش کو نہ پہنچے۔اسے جب معلوم ہوا کو بوڑ ھے بریر لومڑ نے اپنے شیڈ میں تازہ تازہ گاجریں اسٹور کر لی ہیں تو اس نے سوچ لیا کہ ان میں میرا بھی حصہ ہے۔۔۔۔۔! کیونکہ گاجریں تو ویسے بھی خرگوش کی پسندیدہ غذا ہے لہذا اس نے لو مڑ سے اجازت لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ا ور روزانہ چھپ کر اس کے شیڈ میں چلا جاتا اور جتنا دل چاہتا بیٹھ کرگاجریں کھاتا۔
ایک دن لومڑ نے جب اپنی گاجروں کا یہ حال دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا۔وہ روزانہ صبح صبح اپنے شیڈ کا چکر لگاتا لیکن معلوم نہ ہو سکا کہ چور کون ہے۔ایک دن و ہ اپنے شیڈ کا معائنہ کر رہا تھا کہ قریب سے خرگوش کو گزرتے ہوئے دیکھا،اس نے وہیں سے آواز لگائی؛ ’’اوئے بریر خرگوش! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میری گاجریں کو ن کُترتا ہے۔۔۔؟‘‘
’’گاجریں کون کُترتا ہے۔۔۔؟‘‘ خرگوش مصنوعی حیرت سے بولا؛’’ کیا تمہارے کہنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم نے شیڈ میں گاجریں اسٹور کر رکھی ہیں جن کو کوئی آکر کُتر جاتا ہے۔۔۔؟‘‘
’’ ہاں بالکل۔۔۔۔۔ میرا یہی مطلب تھا۔‘‘ لومڑ خرگوش کو گھورتے ہوئے بولا
’’ اسکا مطلب ہے کہ تمہارے شیڈ میں چوہیا آگئی ہے۔۔۔!‘‘ خرگوش چالاکی سے بولا؛ ’’ میرے پاس چوہے دان پڑا ہے،تم کہو تومیں تمہارے شیڈ میں لگا سکتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر خوگو ش سیٹی بجاتا ہوا تیزی سے وہاں سے نکل گیا،لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچتا رہا کہ آج جب وہ شیڈ میں گاجریں کُترنے
آئے تو چوہے دان سے ہوشیار رہے۔
لیکن لومڑ نے اپنے شیڈ میں کوئی چوہے دان نہیں لگایا بلکہ جاگ کر خود ہی چور پکڑنے کا فیصلہ کیا۔جب اس نے آدھی رات کو شیڈ کا دروازہ کھلنے کی چرچراہٹ سنی تو چھلانگ لگا کر کرسی سے اُٹھا اور بہت آہستگی سے شیڈ میں پہنچ گیا اور اپنی لالٹین جلا لی۔خرگوش جو پہلے سے شیڈ میں موجود تھا اسکو پتا تو چل گیا تھا کہ لومڑ بھی آ گیا ہے لیکن اب وہ باہر نہیں نکل سکتا تھا۔لہذاٰ وہ خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ گیا اور اپنی دُم ایک سوراخ سے باہے نکال دی۔
جب لومڑ نے لالٹین کی روشنی میں شیڈ کے اندر جھانکا تو اس نے خرگوش کو ایک کونے میں ساکت بیٹھا پایا۔
’’ اوہ بریر خرگوش۔۔۔۔!آخر میں نے تمہیں پکڑ ہی لیا۔۔۔!‘‘ لومڑ خوشی سے بولا
’’ کیا مطلب ہے تمہارا کہ تم نے مجھے پکڑ ہی لیا۔۔۔۔؟‘‘خرگوش حیرانی سے بولا؛’’ میں یہاں شام سے ساکت بیٹھا ہوں۔۔۔۔۔چوہے والے سوراخ میں اپنی دُم پھنسا رکھی ہے۔۔۔تاکہ تمہاری گاجریں کترنے والی چاہیا کو پکڑ سکوں اور تم مجھے ہی چور سمجھ رہے ہو۔۔۔؟ کیا یہی ہے نیکی کا صلہ۔۔۔۔۔۔؟ مجھے سخت افسوس ہورہا ہے۔۔۔!‘‘
’’ تم یہاں کس طرح چوہے پکڑ رہے ہو۔۔۔؟‘‘ لو مڑ حیرانی سے بولا
’’ کیوں۔۔۔۔ کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔؟‘‘خرگوش ناراضگی سے بولا؛’’ میں یہاں ساکت بیٹھا ہوں اور اپنی دُم اس سوراخ میں ڈال رکھی ہے تاکہ جب چوہیا اس سوراخ سے اندر آنے کیلئے میری دُم پر چڑھے تو میں فوراً اسکو دُم سمیت اندر گھسیٹ لوں اور پکڑ لوں۔‘‘
میں نے تو کبھی چوہے پکڑنے کا یہ انوکھا طریقہ نہیں د یکھا۔۔۔۔!‘‘ لومڑ حیرانی سے بولا
’’ اچھا ۔۔۔۔تو اب تک تم اس طریقے سے کتنے چوہے پکڑ چکے ہو۔۔۔؟‘‘
’’ شش۔۔۔!‘‘ خرگوش اسے خاموش کرتے ہوئے بولا؛’’مجھے لگتا ہے کہ وہاں کوئی چوہیا ہے۔۔۔!‘‘ اور لومڑ بھی خاموش اور ساکت ہوگیا۔
’’ اوہو۔۔۔۔! دیکھا بھاگ گئی۔‘‘خرگوش افسوس سے بولا؛’’دراصل میری دُم بہت چھوٹی ہے نا۔۔۔۔اگر تمہارے جیسی لمبی پیاری سی دُم ہوتی تو اب تک میں کم از کم بیس چوہیاں پکڑ چکا ہوتا۔۔۔!‘‘
’’کیا واقعئی۔۔۔۔؟‘‘لومڑ نے بہت دلچسپی سے پوچھا؛’’ میری دُ م کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔؟ اگر میں ا سے سوراخ میں
ڈال کر بیٹھوں تو کتنی چوہیاں پکڑ سکتا ہوں۔۔۔۔؟‘‘
’’ اوہ بریر لومڑ۔۔۔۔۔میں تمہیں اس مشکل کام میں نہیں ڈال سکتا۔تم میں اتنا صبر نہیں ہے کہ کئی گھنٹے ساکت بیٹھ سکو۔۔۔!‘‘ خرگوش ہمدردی سے بولا
’’ کیوں نہیں بیٹھ سکتا میں۔۔۔؟ بالکل بیٹھ سکتا ہوں۔۔۔! ‘‘ لومڑ جوش سے بولا،مجھ میں بھی اتنا صبر ہے جتنا تم میں۔
آخر لومڑ نے بھی ایک سوراخ ڈھونڈ لیا جس میں سے چوہیا آ سکتی تھی،اور اپنی لمبی دُم اس میں ڈال کر بیٹھ گیاجو شیڈ سے باہر لٹک رہی تھی اور زمین کو چھو رہی تھی۔ساتھ ہی خرگوش بھی ایک سوراخ میں اپنی چھوٹی سی بوب دُم ڈال کر بیٹھ گیا۔
’’ آگئی۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ چوہیا آ گئی۔۔۔۔! آؤ جلدی کرو بی چوہیا میری دُم پکڑ لو۔۔۔!‘‘ خرگوش جوش سے بولا؛’’ ہاں جلدی سے میری دُم پکڑو تا کہ میں تمہیں اندر کھینچ لوں۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر خرگوش نے جھٹکے سے اپنی دُم اندر کھینچ لی اور اسے دیکھنے لگاجیسے کہ اس میں چوہیا لٹک رہی ہو۔
’’ اوہو۔۔۔۔۔!‘‘ خرگوش افسوس سے بولا؛’’ پھر بھاگ گئی۔۔۔! اس دفعہ تو مجھے یقین تھا کہ پکڑی جائے گی،لیکن کیا کروں میری دُم جو چھوٹی ہے۔۔۔۔۔!لیکن تم اسی طرح بیٹھے رہو بریر لومڑ اور ذرا سی آہٹ ہو تو فوراً بولنا’آؤ اور میری دُم ؛کڑ لو۔‘‘
اب دن نکل رہا تھا ،لومڑ کے شیڈ کے پاس سے بریر ریچھ گزر رہا تھا۔خرگوش ریچھ کے قدموں آواز پہچانتا تھا،وہ جیسے ہی شیڈ کے قریب سے گزرا خرگوش لومڑ سے بولامجھے کچھ آہٹ سی محسوس ہوئی ہے اور لومڑ فوراً بولا ؛’’ آؤ آؤ جلدی سے میری دُم پکڑ لو۔۔۔!‘‘
ریچھ جو قریب سے گزر رہا تھااس نے دیکھا بریر لومڑ کی دُم شیڈ سے باہر لٹک رہی ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ آؤ میری دُم پکڑ لو۔ریچھ یہ سب دیکھ کر بہت حیران ہوا،اس نے لومڑ کی دُم کو ہلکا سا چھوا،لومڑ سمجھا چوہیا اسکی دُم پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔۔! وہ اور زور سے چلایا؛’’ہاں ہاں پکڑ لو،میری دُم پکڑ لو ،چھوڑنا نہیں۔۔۔۔!‘‘
ریچھ نے جب لومڑ کو بار بار یہی کہتے سنا تو اس نے دُم کو بہت مضبوطی سے پکڑ لیا۔لومڑ گھبرا گیا ،پریشان ہوکر خرگوش سے بولا؛ ’’ لگتا ہے کسی نے میری دُم پکڑ لی ہے۔‘‘
خرگوش یہ خوش خبری سن کر باہر کی طرف دوڑا اور شیڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا،جاتے جاتے چیخ کر بولا؛
’’ میں جا کر دیکھتا ہوںتمہاری دُم کس نے پکڑی ہے۔۔۔!‘‘
اس نے دیکھا ریچھ نے لومڑ کی دُم پکڑ رکھی ہے،وہ مسکرایا اور بولا؛’’ مضبوطی سے پکڑے رہو۔۔۔۔چھوڑنا نہیں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دی،کیونکہ وہ اسی انتظار میں تھا کہ کوئی آ کر لومڑ کی دُم پکڑ لے اور اسے وہا ں سے بھاگنے کا موقع مل جائے ورنہ لومڑ نے آج اسے بھاگنے نہیں دینا تھا۔
خرگوش بھگاتا گیا ور گھر جا کر ہی دم لیا۔گھر جا کر اس نے کُنڈی چڑھا لی،پھر جو اسکی ہنسی چھوٹی ہے تو کئی گھنٹے تک ہنستا ہی چلا گیا۔ وہ اب تک تصور میں ریچھ کو لومڑ کی دُم پکڑے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔