Jis ka kaam ussi ko sajhay – جس کا کام اسی کو ساجھے

جس کا کام اسی کو ساجھے

ـــ’’ارے ابو اتنے سارے پیسے کہاں سے آئیــ؟‘‘ماہم نے میز پر پڑی نوٹوں کی گڈی دیکھ کر حیرت سے پوچھا ، کیونکہ اس کے ابو سرکاری ملازم تھے اور ہر ماہ ایک لگی بندھی تنخواہ آتی تھی جو باعزت زندگی گزارنے کے لیے تو کافی تھی مگر اتنی زیادہ ہر گز نہ تھی کہ مہینہ ختم ہونے پر بھی اس طرح گڈی نوٹوں کی صورت میں میز پر پڑی نظر آئے۔

ماہم نے پھر سوالیہ نظروں سے ابو کی طرف دیکھا تو وہ بولے ’’بیٹا حیران نہ ہو یہ بھی میری محنت کی کمائی کا حصہ ہیں۔ دراصل کچھ سال پہلے جب میرا گریڈ بڑھا تھا تب کسی دفتری رکاوٹ کے باعث میری تنخواہ میں اضافہ نہ ہو سکا تھااب وہ بڑھی ہوئی تمام رقم اکٹھی مل گئی ہے۔ اب سوچ رہا ہوں کہ ان پیسوں کا کیا کیا جائے؟‘‘

’’ابو میں بتاتا ہوںکیا کریں!‘‘ اسد تمام گفتگو سنتا ہوا اند رآیا تھا وہیں سے بولا، نئے نئے نوٹوں کی گڈی دیکھ کر اس کی آنکھوں میں انوکھی چمک پیدا ہو گئی تھی۔

’’اب ندیدوں کی طرح تم ان نوٹوں کو مت دیکھو!‘‘ماہم نے فوراََ تنقید کی ۔

’’ابو ایسا کرتے ہیں کہ ہم اپنی پرانی کھٹارہ گاڑ ی بیچ کر کچھ نئی گاڑی لے لیتے ہیں۔‘‘ اسد نے مشورہ دیا۔

’’بیٹا یہ’’کچھ نئی گاڑی‘‘ کیسی ہوتی ہے؟‘‘ابو نے اس کے مشورے پر مسکرا کر کہا۔

’’میرا مطلب ہے ابو کہ بالکل نئی زیرو میٹر گاڑی تو ہم کبھی بھی نہیں لے سکتے لہٰذا کچھ چلی ہوئی گاڑی لے لیتے ہیں کم از کم اس دھکا اسٹارٹ گاڑی سے تو بہتر ہو گی۔‘‘

’’اچھا اچھا ! جو بھی لینا ہو گا بعد میں اطمینان سے سوچ لیجئے گا مگر ابھی تو ان پیسوں کو سنبھال کر رکھیں ۔ کسی کو بھنک بھی پڑ گئی تو گھس آئے گا چوری کرنے کے لیے۔‘‘امی نے خدشہ ظاہر کیا۔

’’ایسے ہی گھس آئے گا کوئی، کوئی لوٹ مچی ہے کیا؟‘‘ اسد بولا۔

’’ہاں لوٹ ہی تو مچی رہتی ہے۔ اخبار نہیں دیکھتے کہ کیسے دن دھاڑے جس کا دل کرتا ہے گھر میں گھس جاتا ہے اور گن پوائنٹ پر سب کچھ لوٹ کر لے جاتا ہے اور گھر والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔‘‘ ماہم نے امی کی تائید میں پوری وضاحت کی۔

’’ہاں ہاں ! تم لوگ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ لو بیگم ان روپوں کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر الماری کے اندر والے سیف میں رکھ دو اور لاک کر دو۔‘‘ابو بولے۔

’’بلکہ ابو ایسا کیجئے ان کو بنک میں ہی رکھو ا دیں۔ جب ضرورت پڑی گی تو نکلوالیں گے ۔ آخر آپ کی محنت کی کمائی ہے جو اتنے سالوں کے انتظار کے بعد ملی ہے۔ اسے کسی محفوظ مقام پر ہی ہونا چاہیے۔ گھر میں رہے تو خطرہ ہی رہے گا۔‘‘ماہم نے ایک اور مفید مشورہ دیا۔

’’دیکھابیگم!ہماری بیٹی کتنی عقلمند ہے؟‘‘ابو نے ماہم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ اور اکڑ گئی کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی عقل مند اور ذہیں سمجھتی تھی۔

’’ابو جب نئی گاڑی آئے گی تو سب سے پہلے میں چلانا سیکھوں گی۔ اس کھٹار ا کو تو ہاتھ لگا تے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے ۔‘‘ماہم اترا کر بولی

’’ہاں ہاں ! بیٹا ، کیوں نہیں ضرور سیکھنا۔‘‘ابو نے تسلی دی۔

ــ’’چلو!جا کر اپنے کپڑے استری کرو پھر صبح بوکھلائی پھرو گی کہ کالج کو دیر ہو گئی ۔ جب سے کالج پہنچی ہے زمین پر پیر ہیں نہیں ٹکتے۔ اب محترمہ گاڑی چلانا سیکھیں گی، میں کہتی ہوں کہ کوئی ضرورت نہیں ہے اس کا دماغ آسمان پر پہنچانے کی۔ اب اس کی شادی کی فکر کریں اور یہ رقم بھی ادھر اُدھر ضائع کرنے کی بجائے اس کی شادی کے لیے رکھ دیں۔آخر پھر بھی تو ضرورت پڑے گی ۔ بار بار اتنی رقم ہاتھ نہیں آتی نا۔‘‘امی نے ساری بات ہی پلٹ دی۔

’’لو! پھر دورہ پڑ گیا امی کو میری شادی کا۔ آخر میں نے ایسا کیا کر دیا ہے جو آپ مجھے ہر وقت گھر سے نکالنے کی فکر میں رہتی ہیں؟ میں نے ابھی بہت پڑھنا ہے۔ آپ کو اگر شادی کا اتنا ہی شوق ہے تو اسد کی کر کے اسے رخصت کر دیں۔ ویسے بھی آج کل لڑکے ہی رخصت ہوتے ہیں۔‘‘ماہم غصے سے بولے چلی گئی۔

’’سنا آپ نے! کتنی زبان چلنے لگی ہے اس کی، کوئی بات کہی نہیں اس کو اور اس کی تقریر شروع ہو جاتی ہے۔ اتنی بڑی گھوڑی ہو گئی ہے مگر مجال ہے جو میر ے ساتھ کوئی کام کروائے، اس کو اگلے گھر بھی جانا ہے ، ایسی زبان دراز اور پھوہڑ لڑکی کو کون برداشت کرے گا۔‘‘امی نے بھی شکایتو ں کا دفتر کھول دیا۔

’’ابو دیکھیں نا!امی ہر وقت مجھے ہی طعنے دیتی رہتی ہیں ۔۔۔۔لڑکی ہونا اتنی بری بات ہے کیا؟‘‘ماہم نے بھی شکایت کی

’’نہیں بیٹا ! بالکل بری بات نہیں ہے۔ ہم تو تمہیں اور اسد کو برابر سمجھتے ہیں۔ تم اپنی امی کی باتوں کا اثر نہ لیا کرو۔‘‘ابو نے سمجھاتے ہوئے کہا

’’واہ ! کیا خوب پٹی پڑھا رہے ہیں بیٹی کو ۔ وہ میری باتوں کو پہلے ہی کب خاطر میں لاتی ہے۔ نافرمان اور کام چور تو وہ پہلے ہی ہے۔ اب اللہ جانے اور کیا کرے گی؟‘‘امی کا غصہ عروج پر تھا

’’بھئی !میری بیٹی کام چور بالکل نہیں ہے اور نافرمان بھی نہیں ہے۔ دیکھو ابھی میرے لیے اچھی سی چائے بنا کر لائے گی ۔ کیوں ماہم بیٹی؟‘‘  ابو نے ماہم کو دیکھ کر کہا

’’جی ابو!‘‘ماہم فوراََ اٹھ کر کچن میں چلی گئی

تھوڑی دیر بعد ماہم امی ابو کے لئے اچھی سی چائے بنا لائی ۔ اتنے میں اسد بھی آگیااور دو کپ چائے دیکھ کر بولا۔

’’ماہم بہن!میرے لیے چائے نہیں بنائی تم نے؟‘‘

’’کیوں تمھارے ہاتھ نہیں ہیں کیا؟ خود بنا لو جا کر۔‘‘

ہاتھ ہیں تو سہی! مگر یہ کچن میں کام کرنے کے لیے نہیں ہیں۔‘‘اسد نے ہاتھ دیکھتے ہوئے کہا۔

’’کیوں ؟ یہ صرف روٹیاں توڑنے کے لیے ہی ہیں ۔‘‘ماہم بولی

’’یہ تمھارا بھائی سے بات کرنے کا طریقہ ہے ؟کیوں نہیں بنائی چائے ؟ اگر ایک کپ اور بنا لیتی تو کیا ہرج تھا؟‘‘امی بولیں

’’یہ بھی تو میرا کوئی کام نہیں کرتا ۔ کتنی منتیں کرواتا ہے۔‘‘

’’اف!توبہ کرو بہن ، دس دس چکر لگواتی ہو بازار کے پھر بھی کہتی ہو کہ کام نہیں کرتا۔‘‘اسد کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا

’’ہاں!تو غلط چیزیں جو لے آتے ہو ۔ چار چیزیں منگوائوتو دو لے کر آتے ہو تو پھر دوبارہ چکر نہ لگوائوں۔‘‘ماہم نے وضاحت کی

تم دو بہن بھائی ہو اور ہر وقت ایسے لڑتے ہو جیسے کی دشمن ہو۔‘‘ امی بے زار ہوتی ہوئی بولیں۔

’’اچھا بھائی !اب یہ بحث ختم کرو اور مجھے ذرا آرام کرلینے دو۔‘‘ابو لیٹے ہوئے بولے تو سب اٹھ کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔

سب لوگ رات کے کھانے سے فارغ ہو کر صحن میں بیٹھے تھے ۔ ابو اخبار دیکھنے لگے اور اسد اپنی فزکس کی کتاب کھول کر بیٹھ گیا۔ کتاب پڑھتے پڑھتے وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگا ۔ ستاروں سے بھر ے آسمان کو وہ بڑی دیر تک غور سے دیکھتا رہا۔

’’اتنا مت گھورو ستاروں کو، کہیںیہ اپنی چال ہی نہ بھول جائیں۔‘‘ماہم نے اسد پر طنز کیا۔

’’ابو کیا یہ ستارے اور سیارے اپنی چال بھول سکتے ہیں؟‘‘اسد نے ابو سے سوال کیا وہ اتنی دیر سے یہی غور کر رہا تھا۔

’’نہیں بیٹا ! اللہ تعالیٰ نے اس کائنا ت کا نظام ایسا بنایا ہے کہ یہ اپنا مقام کبھی نہیں بھولتے ۔ ہمیشہ ایک ہی رفتا ر سے اپنے محور کے گر د گردش کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ ایک انچ بھی اپنی جگہ سے ہل جائیں تو کائنات ہی تباہ ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے خوردبین سے نظر آنے والے چھوٹے ترین جاندار سے لے کر اس کائنات کے بڑے سے بڑے ستاروں تک کا نظام متعین و مقرر کر رکھا ہے۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری میں مصروف ہے، اگر نہیں ہے تو انسان ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اپنی اوقات اور اپنا مقام بھول گیا ہے، اپنے محور سے ہٹ گیا ہے۔اسی لیے نقصان اٹھا رہا ہے اور آج ہماری دنیا کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ آ یندہ سالوں میں تازہ پانی اور تازہ ہوا کی شدید قلت کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ ہم اپنی پیاری دنیا کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔‘‘

’’ابو!میں اس دنیا کو تناہی سے بچانے کی پوری کوشش کروں گی۔‘‘ماہم بڑے عزم سے بولی تو اسد کو ہنسی آگئی۔ ماہم نے اسے غصے سے گھور اتو امی فوراََبولیںــ’’اب اس سے پہلے کہ تم پھر لڑنا شروع کر دو دونوں اٹھ جائو یہاں سے، اسد چلو تم صبح ناشتے کے لیے بازار سے انڈے ڈبل روٹی لے آئو اور ماہم تم چل کر اپنے ابو کے لئے چائے بنائو۔پہلے ڈھنگ سے چائے تو بنانا سیکھ لو ۔ چلی ہیں دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ، اپنے جھگڑے تو تم سے نبٹائے نہیں جاتے۔‘‘

ماہم کو فوراََغصہ آگیا اور وہیں کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔

’’چلو ! اب اندر جا کر چائے بنائو کیا یہاں کھڑی گھور رہی ہو۔ بڑوں کی بات برداشت کرنا سیکھو، تم لڑکی ہو نہ جانے آیندہ کیا کیا برداشت کرنا پڑے گا؟ ماں کی ایک ذرا سی بات برداشت نہیں ہوتی ہے محترمہ سے ۔‘‘امی نے پھر تنقید کی

’’ابو! ایک تو امی مجھے ہر وقت لڑکی ہونے کا طعنہ دیتی رہتی ہیں، انہیں سمجھائیں۔‘‘ماہم تنک کر بولی۔

’’نہیں بیٹا !طعنہ نہیں ہے یہ حقیقت ہے کہ تم لڑکی ہو ۔ کیا تمہیں لڑکا کہا کریں۔‘‘ابو نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’ٹھیک ہے میں لڑکا نہیں ہوں ، مگر لڑکو سے کم تو نہیں ہوں۔ کیا میں لڑکو والے کام نہیں کر سکتی۔ کیا یہ اسد بازار سے انڈے ڈبل روٹی لا کر کوئی کارنامہ کرتا ہے، چائے تک تو یہ بنا نہیں سکتا پھر مجھ سے بہتر کیسے ہو گیا؟ ابو یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا۔‘‘ ماہم نے احتجاج کیا۔

’’تمہارا احتجاج بالکل درست ہے بیٹا۔ اسد ادھر آئو تم کچن میں جا کر میرے لیے چائے بنا کر لائو اور یہ پیسے ماہم کو دو یہ بازار سے انڈے ڈبل روٹی لے آئے گی۔‘‘ا بو نے انصاف کیا۔

’’کیا میں بازار سے سودا لائوں ؟ ابو یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ دیکھیں تو رات کے دس بج رہے ہیں میں بھلا کبھی اکیلی بازار گئی ہوں؟‘‘ ماہم نے حیرانی سے پہلے ابو اور پھر امی کو دیکھا۔

’’تو کیا ہوا! میں نے بھی تو کبھی چائے نہیں بنائی۔‘‘اسد بولا تو ماہم نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔

’’بیٹا !اب اس میں حیرانگی یا غصے والی کیا بات ہے۔ تمہارے نزدیک تو انصاف یہی ہے نا کہ تم لڑکوں والے کام کرو اور اسد لڑکیوں والے۔‘‘ ابو سنجیدگی سے بولے۔

’’یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ اس بے وقوف لڑکی کی باتوں میں آگئے ہیں ۔ اس جوان جہاں گھوڑی کو آپ سودا لینے بھیج رہے ہیں وہ بھی رات کے دس بجے؟‘‘امی نے بے یقینی سے کہا۔

’’اب تو میں ضرور جائوں گی۔ آپ کیا سمجھتی ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کسی سے؟‘‘ ماہم اکڑ کر بولی اور دوپٹہ سر پر لے کر باہر نکل گئی۔

’’یہ آپ نے کیا کیا؟؟ اسے اکیلے جانے دیا۔ ابھی تو آ پ انہیں یہ سبق پڑھا رہے تھے کہ انسان اپنے محور سے ہٹ گیا ہے اسی لیے نقصان اٹھا رہا ہے اور خود ہی جوان لڑکی کو الٹی راہ دکھا رہے ہیں۔ بلا کسی محلے والے نے اکیلے اسے جاتے ہوئے دیکھ لیا تو کیا کہے گا؟ اب آپ جائیں اس کے پیچھے۔‘‘امی نے پریشان ہو کر ابو سے کہا۔

’’ارے بھئی گھبرائو نہیں ابھی آجاتی ہے۔ یہ گلی کے نکڑ پر تو دکان ہے۔‘‘ابو اطمینان سے بولے۔

اتنے میں دھاڑ سے دروازہ کھلا اورماہم حواس باختہ اندر داخل ہوئی اور اندر آکر دروازے کی کنڈی چڑھا لی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔

’’یا اللہ خیر! کیا ہوا میری بچی کو!‘‘ امی گھبرا کر اسکی طرف لپکیں۔

’’امی ۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔ موٹر سائیکل پر ۔۔۔۔۔ وہاں ۔۔۔۔۔۔ وہ میراپیچھا ۔۔۔۔۔۔‘‘ اور اسکی آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی اور امی سے لپٹ کر رونے لگی۔

’’ارے بیٹا کو ن تھا، تھپڑ رسید کرنا تھا، سالے کے مزاج درست ہو جاتے۔ تم کوئی بزدل لڑکی تھوڑا ہی ہو جو اس طرح بھاگ کر اندر چلی آئیں۔‘‘ابو اطمینان سے بول رہے تھے۔

’’لیکن ابو میں بلا انہیں کیسے مار سکتی تھی؟ وہ تو موٹر سائیکل پر تھے۔ مجھے تو پتا ہی نہ چلا کہ اچانک کہاں سے نکل آئے۔‘‘وہ سخت خوف زدہ تھی باربار دروازے کو دیکھ رہی تھی۔

’’ادھر آئو میری بیٹی ، یہاں بیٹھو میرے پاس۔‘‘ ابو نے ایک طرف ہو کر چارپائی پر اس کے لیے جگہ بنائی اور پیار سے بولے۔

ــ’’تمہیں یاد ہے بیٹا!کچھ دن پہلے تم نے میز پر پڑے ہوئے روپے دیکھ کر کہا تھا کہ انہیں سیف میں حفاظت سے رکھ دوں تاکہ میری محنت کیکمائی کوئی چور اچکا نہ لے جا سکے۔‘‘

’’جی ابو یاد ہے۔‘‘ماہم نے حیرت سے ابو کو دیکھا کہ اس وقت ان کو وہ واقعہ کیوں یاد آگیا ؟

’’بالکل اسی طرح اولاد بھی ماں باپ کے لیے بے حد قیمتی چیز ہوتی ہے اور بیٹی کی عزت تو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے ۔لہٰذا اسے بھی چور اچکوں سے بچانا ضروری ہوتا ہے اور گھر کی چار دیواری اس کے لیے سب سے محفوظ جگہ ہوتی ہے۔ بعض بچے ماں باپ کے سمجھانے سے ہی سمجھ جاتے ہیں لیکن بعض بچے تجربے سے سیکھتے ہیں۔

چونکہ آج کل کی تعلیم نے لڑکے لڑکی کے فرق کو مٹا دیا ہے اور ایک تعلیم یافتہ لڑکی کا ذہن بی اسی سطح پر کام کرتا ہے جس پر ایک لڑکے کا لہٰذا آج کل کی لڑکیاں اپنے آپ کو لڑکوں سے کسی طرح بھی کم نہیں سمجھتیں۔ گو کہ یہ حقیقت ہے کہ لڑکیا ں لڑکوں سے بھی زیادہ ذہین ہیں مگر وہ پھر بھی ہوتی تو لڑکیاں ہیں نا، جن کو والدین کسی صورت بھی اس دنیا کے چور اچکوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اسی لیے انہیں بار بار یہ احساس دلانا پڑتا ہے کہ تم لڑکی ہو۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟ یہ تم نے آج خود ہی دیکھ لیا ۔ سمجھ آئی میری بات!!!!‘‘

’’جی ابو۔‘‘ماہم سر جھکا کر سن رہی تھی۔ ان اسے امی ابو کی ہر بات سے اتفاق تھا۔

’’اچھا اب مجھے یہ بتائو کہ اگر تمہیں کہیں سے کوئی قیمتی ہیرا مل جائے تو تم اس کا کیا کرو گی؟ کیا سے ہر آئے گئے کو خوش ہو ہو کر دکھائو گی یا اسے حفاظت سے چھپا کر رکھو گی؟‘‘ابو نے ایک اور سوال پوچھا۔

’’ظاہر ہے ابو کہ میں اسے چھپا کر کسی محفوظ مقام پر رکھوں گی۔ ہر آئے گئے کو کیوں دکھائوں گی؟؟ اس طرح تو لوگوں کی نظر لگ سکتی ہے یا پھر کوئی اسے چرا بھی سکتا ہے۔‘‘ماہم نے وضاحت کی۔

ــ’’شاباش!میری بیٹی بہت ہی سمجھ دار ہے۔‘‘ابو بولے۔

’’بس بیٹا یہی سمجھ لو کہ جب بیٹی کسی گھر میں آتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ والدین کے ہاتھ کوئی قیمتی ہیرا لگ گیا ہو۔  انہیں جہاں اس کے آنے کی خوشی ہوتی ہے وہاں اس قیمتی ہیرے کی حفاظت کی پریشانی بھی لاحق ہو جاتی ہے۔ والدین کا بس یہی دل چاہتا ہے کہ اسے دنیا کی نظروں سے بچا کر رکھیں۔ اور جلد از جلد کسی مقامِ محفوظ تک پہنچا دیں۔ اور جانتی ہو کہ یہ محفوظ مقام کونسا ہوتا ہے؟‘‘اس سوال پر ماہم نے سوالیہ نظروں سے ابو کی طرف دیکھا۔

’’یہ وہی مقام ہوتا ہے جس کا مائیں بیٹیوں کو بار بار حوالہ دیتی ہیں۔ دوسرا گھر یعنی سسرال۔ بیٹی کے لیے سب سے محفوظ مقام اس کا سسرال ہی ہوتا ہے۔ اس لئے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد اس محفوظ مقام پر پہنچ جائے۔ اس گھر کے تما م افراد یعنی شوہر ، ساس، سسر، نندیں، دیور، سبھی اس کے محافظ ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھنا چاہیے۔ــ‘‘

’’چائے! گرما گرم چائے حاضر ہے۔‘‘اسد سب کے لئے چائے بنا لایا تھا۔

’’یہ تم سے اتنی ساری چائے بنانے کو کس نے کہا تھا ؟‘‘ امی حیران ہوئیں۔ ’’بھئی میں نے سوچا صرف آپ لوگوں کے لیے چائے بنائی تو ماہم کہے گی کہ میرے لیے کیوں نہیں بنائی؟ اب میں ماہم کی طرح نک چڑھا تو ہوں نہیں ۔ مجھے اپنی بہن کا بہت خیال ہے۔‘‘ اسد نے ماہم کی شکل دیکھتے ہوئے کہا کہ کہیں اسے غصہ تو نہیں آ رہا۔’’ابو کیسی ہے چائے؟‘‘ اس نے بڑے شوق سے پوچھا۔

ایک گھونٹ لیتے ہی ابو کو اچھو ہو گیا۔ چائے فوراََ تھوک دی اور بولے۔

’’اوفو!!!!  یہ چینی کی جگہ نمک کیوں ڈال دیا تم نے؟‘‘

’’اوہ! سوری ابو! دراصل چینی اور نمک کے ڈبے بالکل ایک جیسے تھے اور ساتھ ساتھ رکھے تھے، اس لیے غلطی سے نمک ڈل گیا۔‘‘ اسد نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔

’’تمہار اسارا دھیان تو باہر لگا ہو گا ، کہ ماہم کو کیا نصیحتیں ہو رہی ہیں۔‘‘ ماہم نے چڑ کر کہا

’’لائیں ابو میں اور چائے بنا کر لاتی ہوں آپ کے لیے۔‘‘

ــ’’شاباش میرا بیٹا! اسے کہتے ہیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ چلو اسد تم اب جلدی سے جا کر سودا لے آئو۔‘‘

ابو نے کہا تو اسد جلدی سے پیسے لے کر باہر کی طرف دوڑا۔

 

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.