شدید برف باری ہو رہی تھی، برفانی ہوا غراتی ہوئی گزر رہی تھی۔ کہیں کہیں سورج کی کرنیں بھی گہرے بادلوں سے چھن چھن کر آرہی تھیں اس سے برف کے ذرّے ایسے چمک رہے تھے جیسے ہیرے کے ٹکڑے۔
آئس برگؔ، ایک ننھا سا برفانی ریچھ کا بچہ ، اپنے ممی پاپا کے ساتھ اپنے غار میں لیٹا ہوا تھا۔ وہ غار کے اندر لیٹے لیٹے تنگ آگیا تھااور باہر جانا چاہتا تھا۔
’’ ممی کیا میں باہر جا کر کھیل سکتا ہوں ۔۔۔۔؟‘‘ آئس برگ نے اپنی ممی آئس لِنؔسے پوچھا
’’ نہیں بالکل نہیں۔۔۔۔۔۔ ابھی باہر بہت سردی اور طوفان ہے، تم کہیں کھو جاؤ گے۔‘‘
ممی نے کہا اور ایک موٹی سفید گیند کی طرح گھوم کر دوبارہ پاپا فروسٹیؔ کی ساتھ لیٹ گئیں اور جلد ہی ان کو نیند آ گئی ۔آئس برگ بھی ان کی ساتھ لیٹا ہوا تھا ، لیکن اس کو اب نیند نہیں آ رہی تھی، وہ سو سو کر تھک چکا تھا۔یہ برفانی ریچھ شدید برف باری کے دنوں میں چھ چھ ماہ تک اپنے غاروں میںچھُپے پڑے رہتے ہیں، اسی طرح وہ سردی سے بچے رہتے ہیں۔
آئس برگ خاموشی سے لیٹا ہوا تھا، باہر تیز ہوا کے غرّانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس نے سر اُٹھا کر دیکھا ممی پاپا دونوں گہری نیند سو رہے تھے۔وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا، اپنے غار کے دروازے تک گیااور سر باہر نکال کر دیکھا
’’ موسم اتنا بھی خراب نہیں۔۔۔۔۔۔!‘‘ آئس برگ نے غار سے قدم باہر نکالتے ہوئے سوچا
’’بر ر ر ر۔۔۔۔۔۔ یہاں تو بہت ٹھنڈ ہے ! ‘‘ تیز ہوا کا جھونکا آیا تو آئس برگ قدم باہر نکالتے ہی ٹھٹھر گیا،وہ واپس اندر آنے ہی لگا تھا کہ اچانک اس کی نظر دور کسی چمکتی ہوئی چیز پر پڑی ۔
’’ واؤ۔۔۔۔۔۔۔وہ کتنی خوبصورت ہے۔۔۔۔۔!‘‘
اس نے غار کے اندر جانے کا اِرادہ بدل دیا اور اس چمکتی ہوئی چیز کو دیکھنے کے لئے اُدھر دوڑا۔ وہ تیز برفباری کی پرواہ کئے بغیر دوڑ رہا تھا اور سفید سفید برف کے ذرے اس کے سر اور گردن پر جمع ہوتے جا رہے تھے مگر اسکو ذرا بھی پرواہ نہ تھی۔وہ اس چمکتی ہوئی چیز کو دیکھنے کے لئے دوڑ رہا تھا مگروہ چیز اور دور ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہ تو سورج کی کرنوں سے چمکتی ہوئی برف تھی،وہ شیشے کی طرح چمک رہی تھی۔
جب وہ ان کے قریب پہنچتا تو وہ چمکتے ہوئے ہیرے اور جگنو سراب کی طرح اس سے اور دور ہو جاتے تھے۔ اور وہ ان کے پیچھے 18 بھاگتا بھاگتا بہت ہی دور نکل گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ آئس برگ اس طرح گھر سے اکیلا نکلا تھا کیونکہ وہ ابھی بہت چھوٹا تھا۔ اس کو اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ کہاں جا رہا ہے ۔ آئس برگ کے سفید بالوں پر پڑے برف کے ذرے بھی چمک رہے تھے ،اور وہ خود بھی چمکتی ہوئی گیند لگ رہا تھا۔وہ خوشی سے دوڑا جا رہا تھا، اس کو بہت مزہ آرہا تھا۔
ممی آئس لِن نے گہری نیند میں بھی ایک آنکھ کھول کر بیٹے آئس برگ کی جانب دیکھا ۔۔۔۔۔لیکن وہ تو وہاں نہیں تھا۔ اُنہوں نے سر اُٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا ،وہ کہیں نظر نہ آیا تو ممی نے پاپا فروسٹی کو ہِلایا اور بولیں ؛
’’ اُٹھو ۔۔۔۔دیکھو۔۔۔۔۔آئس برگ نہیں ہے، لگتا ہے کہ وہ باہر چلا گیا۔ اس نے تھوڑی دیر پہلے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں باہر جا کر کھیلوں لیکن میں نے منع کردیا تھا۔۔۔۔۔ وہ پھر بھی چلا گیا ۔ باہر برفانی طوفان آیا ہوا ہے ۔۔۔۔مجھے ڈر ہے کہ وہ راستہ ہی نہ بھول جائے، ہمیں جا کر اس کو ڈھونڈنا چاہیئے۔ ‘‘
’’ اوہ میں کتنی اچھی نیند سو رہا تھا۔۔۔۔۔! ‘‘
پاپا فروسٹی جمائی لیتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے، وہ اتنے بڑے تھے کہ غار میں آدھی سے زیادہ جگہ تو اُنہوں نے ہی گھیر رکھی تھی۔
وہ دونوں گرم گرم بستر چھوڑ کر اپنے بچے کو تلاش کرنے کے لئے غار سے باہر نکلے تو تیز برفانی ہوا نے ان کا استقبا ل کیا۔
’’آئس برگ۔۔۔۔! آئس برگ۔۔۔! بیٹا تم کہاں ہو۔۔۔۔۔؟ ‘‘
وہ دونوں اپنے بچے کو پکارتے اور ڈھونڈتے رہے ،لیکن وہ کہیں نہ ملا۔
’’ اب ہم اسے کہاں تلاش کریں ۔۔۔۔؟‘‘
ممی مایوس ہوکر بولیں ،وہ چل چل کر تھک گئیں تھیں
’’ تم فکر نہ کرو ہم اُسے ڈھونڈ ہی لیں گے۔‘‘پاپا نے ممی کو یقین دلایا۔
ان دونوں کو بہت مشکل پیش آرہی تھی کیونکہ مسلسل برفباری ہو رہی تھی اور ہوا بہت تیز تھی، لیکن اُنہوں نے اپنی تلاش جاری رکھی، اُنہیں ڈر تھا کہ کہیں آئس برگ کسی مشکل میں نہ پھنس گیا ہو۔وہ چلتے رہے چلتے رہے اور آئس برگ کو آوازیں دیتے رہے۔
کچھ دور جا کر ان کو ایک پینگوئن نظر آیا ، وہ برف کے ایک ٹیلے کے پاس کھڑا تھا۔
’’ ہیلو پینگوئن۔۔۔۔! کیا تم نے یہاں کوئی ننھا ریچھ تو نہیں دیکھا۔۔۔؟‘‘ پاپا فروسٹی نے اس سے پوچھا
’’ نہیں ۔۔۔۔۔میں نے تو کوئی ننھا ریچھ یہاں نہیں دیکھا۔۔۔! کیا وہ کھو گیا ہے۔۔۔۔۔؟ ‘‘ پینگوئن نے پوچھا
’’ میرا نام ’ ٹکس tux‘ ہے، کیا میں تمہاری کچھ مدد کر سکتا ہوں ۔۔۔۔؟ ‘‘ پینگوئن پھر بولا
’’ ہاں اسکو ڈھونڈنے میں تم ہماری مدد کرو۔۔۔۔۔۔لیکن تم یہاں اس ٹیلے کے پاس کھڑے کیا کر رہے تھے۔۔۔۔؟ ‘‘ ممی نے پوچھا
’’ یہ ایک سلائڈ ہے ،دیکھو۔۔۔۔! ‘‘ ٹکس پینگوئن نے جواب دیا۔ وہ پیچھے جا کر ٹیلے پر چڑھ گیا اوردوسری سائڈ سے پھسلتا ہوا نیچے آیا
’’ دیکھا ۔۔۔۔۔۔! یہ کتنی اچھی سلائڈ ہے۔۔۔۔؟ ‘‘ ٹکس پینگوئن اپنی اس ایجا د پر خوشی سے بولا
’’ ہمارا بیٹا بھی اس پر پھسل کر بہت خوش ہوگا۔‘‘ ممی پاپا دونوں مسکرائے
’’ جب ہم اسے ڈھونڈ لیں گے توکیا وہ تمہاری ساتھ اس سلائڈ پر پھسل سکتا ہے۔۔۔۔۔؟ ‘‘ ممی نے پوچھا
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟چلو اب چل کر اس کو ڈھونڈتے ہیں، موسم بہت خراب ہے وہ ننھا بچہ راستہ بھٹک کر گم بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ ٹکس بولا اور ان کی ساتھ چل پڑا ۔
اُنہوں نے پہاڑی پر ،ٹیلوں کے پیچھے،جھاڑیوں میں اور ہر اس جگہ آئس برگ کو تلاش کیا جہاں وہ جا سکتا تھا۔ اب برفباری کا طوفان بھی کچھ کم ہوگیا تھا اور ان کو راستہ صاف نظرنے لگا تھا۔وہ تھوڑاآ گے گئے تو وہاں پینگوئن ٹکس کو ایک سیل نظر آیا، جو اپنے بِل کے باہربرف پر لیٹا ہوا تھا۔وہ بھی شاید سوسو کر تھک گیا تھا اور باہر آکر بیٹھ گیا تھا۔وہ تینوں سیل کے پاس آگئے اور پاپا فروسٹی نے پوچھا؛
’’ بھائی تم نے یہاں کہیں کوئی ریچھ کا بچہ تو نہیں دیکھا۔۔۔۔؟‘‘
سُرمئی سیل نے سر اُٹھا کر پاپا فروسٹی اور پینگوئن کی طرف دیکھا پھر بولا؛
’’ نہیں، میں نے یہاں ایسی کوئی بھی چیز نہیں دیکھی، میں تو یہاں صبح سے بیٹھا مچھلیوں کے گزرنے کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
وہ سیل اُچھل کر اُن تینوں کے پاس آگیا اور بولا؛
’’ میرا نام ’کول ‘ ہے، تم نے بتایا کہ تمھارا بچہ گم ہوگیا ہے ۔۔۔۔ ! میں یہاں فارغ ہی بیٹھا ہوں، کیا اسکو ڈھونڈنے میں میں تمہاری مدد کروں ۔۔۔۔؟
’’ جی ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔۔! ہمیں اپنے بچے کو ڈھونڈنے میں آپ سب کی مدد چاہیئے،وہ بہت چھوٹا ہے اور ہم اسکے لئے بہت پریشان ہیں۔‘‘ آئس لِن اداسی سے بولی
اب پاپا فروسٹی ،ممی آئس لِن، پینگوئن ٹکس اور سیل کول ۔۔۔۔۔چاروں آئس برگ کو ڈھونڈنے کے لئے چل پڑے۔ہر کوئی اپنے اپنے طور پر آئس برگ کو آوازیں دے رہا تھا۔مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔
برف کا طوفان اب مکمل طور پر تھم چکا تھا، برف کا کوئی کوئی گالا ہوا کی ساتھ اُڑ کر آتا اور زمین پر گِر کر برف کی ساتھ مل جاتا تھا۔ نیلا آسمان اب صاف نظر آنے لگا تھا اور سورج بھی چمکنے لگا تھا، سورج کی روشنی سے برف شیشے کی طرح چمک رہی تھی۔
’’ وہ دیکھو ۔۔۔۔۔وہاں کچھ ہے۔۔۔۔! کہیں وہی تمہارا آئس برگ تو نہیں۔۔۔۔۔؟ ‘‘ پینگوئن ٹکس نے برف کے ایک گولے کی طرف اشارہ کیا تو وہ تینوں دوڑ کر وہاں اس کے قریب گئے۔۔۔۔۔۔۔۔!
’’ اوہ ۔۔۔یہ تو ایک والرس ہے۔۔۔۔! ‘‘ وہ تینوں بیک وقت بولے
’’ ہاں۔۔۔ تو اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے۔۔۔۔۔؟ ــ‘‘ والرس نے پوچھا اور اُٹھ کر بیٹھ گیا
’’ ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔دراصل ہم تو اپنا بچہ ڈھونڈ رہے تھے۔‘‘ پاپا فروسٹی بولے
’’ وہ صبح صبح طوفان میں کہیں نکل گیا تھا اور ہم ابھی تک اس کو ڈھونڈ نہیں پائے۔ تم نے تو نہیں دیکھا۔۔۔ ؟ ‘‘ ممی آئس لِن نے کہا
’’ نوپ۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں دیکھا ، میں تو سو رہا تھا۔۔۔۔والرس جلدی تھک جاتے ہیں نا ۔‘‘ والرس نے مسکرا کر کہا پھر آگے بڑھ کر بولا؛
’’ میرا نام ’ ٹسک ‘ ہے۔ ‘‘ والرس نے اپنی بہت لمبی لمبی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بتایا
’’ اور میرا نام ’ٹکس‘ ہے، یہ کول ہے۔۔۔۔ وہ فروسٹی اور آئس لِن ہیں جن کا بچہ گُم ہوا ہے ، ہم سب مل کر اسی کو تلاش کر رہے ہیں ۔‘‘ پینگوئن نے بھی آگے بڑھ کر اپنا اور باقی سب کا تعارُف کروایا۔
’’ کیا تم بھی ہماری ساتھ چل کر ان کے بچے کو تلاش کرنے میں ہماری مدد کر سکتے ہو۔۔۔۔؟ ‘‘ پینگوئن نے والرس سے پوچھا
’’ ہا ں ہاں کیوں نہیں۔۔۔۔۔تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ وہ کہاں گیا ہوگا۔۔۔۔؟ ‘‘ بڑے والرس نے بمشکل اُٹھتے ہوئے پوچھا
’’ ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ وہ کہاں گیا ہوگا ، وہ بہت ہی چھوٹا بچہ تھا، ہم چاہتے ہیں کہ اسے رات ہونے سے پہلے تلاش کر لیں ورنہ وہ ڈرے گا۔‘‘ ممی آئس لِن نے کہا جو سب سے زیادہ پریشان تھیں
’’ آئس برگ ، آئس برگ، آئس برگ تم کہاں ہو ۔۔۔۔۔! ‘‘ وہ پانچوں ننھے ریچھ کو آوازیں دیتے ہوئے ڈھونڈ رہے تھے ، مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔
’’ تم سب لوگ اتنی سردی میں اس طرح کہاں گھومتے پھر رہے ہو ۔۔۔۔۔؟ ‘‘
ایک برفانی بارہ سنگھا جس کا نام ’ ٹنڈر ا ‘ تھا، وہ کھڑا ایک چٹان سے اپنے سینگ رگڑ کر تیز کر رہا تھا، اس نے جو اتنے سارے لوگوں اچانک اس طرح آتے دیکھا تو پوچھا۔
’’ ہم سب لوگ ان کے بچے کو تلاش کر رہے ہیں، وہ کہیں کھو گیا ہے، تم نے تو نہیں دیکھا اسے کہیں۔۔۔۔؟۔‘‘ پینگوئن نے فروسٹی اور آئس لِن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹنڈر ا سے پوچھا۔
’’ نہیں میں نے تو اسے کہیں نہیں دیکھا، لیکن اسکو ڈھونڈنے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔‘‘ ٹنڈرا نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا
اور وہ سب آئس برگ کو آوازیں دیتے ہوئے آگے چلے، مگر آئس برگ نے کسی کی آواز کا جواب نہیں دیا۔
چلتے چلتے پہاڑ اورپھر میدان بھی ختم ہوگیا، اور وہ سمندر کے کنارے پہنچ گئے، وہاں اُنہوں نے ایک پتھر پر ایک برفانی اُلو owl کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔
’’ اے اُلو۔۔۔۔ کیا تم نے یہاں ریچھ کے کسی چھوٹے بچے کو تو گھومتے نہیں دیکھا۔۔۔۔؟ وہ گُم ہو گیا ہے۔‘‘ ٹنڈر ا نے آگے بڑھ کو اُلو سے پوچھا نہیں ،میں نے تو کسی بچے کو یہاں نہیں دیکھا، لیکن میں بھی اسے تلاش کرنے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔ ویسے میرا نام ’ سُقراط ‘ ہے۔ ‘‘ اُلو نے جواب دیا
اب وہ ساتوں آئس برگ کو آوازیں دے رہے تھے، لیکن اب بھی اسکا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔
دور گہرے سمندر میں ایک بڑی وہیل مچھلی تیر رہی تھی، اس نے دیکھا کہ سمندر کے کنارے بہت سارے جانور کسی کو پکار رہے ہیں تو وہ ان کے قریب آگئی، اس نے اپنے سر سے پانی کا فوارہ نکالااور پوچھا؛
’’ تم سب لوگ یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔؟ اور یہ آئس برگ کون ہے۔۔۔۔؟ ‘‘
وہ سب سمندر کے کنارے پر آگئے اور نیچے کی طرف دیکھا
’’ آئس برگ میرا بیٹا ہے ۔۔۔۔وہ کہیں کھو گیا ہے اور ہم سب مل کر اسکو ڈھونڈ رہے ہیں لیکن صبح سے اسکا کہیں کچھ پتا نہیں چلا۔‘‘ پاپا فروسٹی نے دُکھ سے بڑی وہیل کو بتایا۔
’’ اچھا تو میں اسکو سمندر میں ڈھونڈتی ہوں ، میں سمندر کا ایک چکر لگا کر آتی ہوں پھر تم کو آکر بتاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہیل واپس گہرے پانی کی طرف چلی گئی۔
وہ سب تھک کر وہیں بیٹھ گئے اور وہیل کی واپسی کا انتظار کرنے لگے ۔ وہ سب کئی گھنٹے سے چل رہے تھے اس لئے اتنے تھک گئے تھے کہ سب کو نیند آگئی۔
بڑی وہیل نے آس پاس کے سمندر میں گھو م پھر کر جائزہ لیا، ان چٹانوں کو دیکھا جو ٹوٹ کر سمندرمیں گِر جاتی ہیں، برف کے ٹکڑوں پر دیکھا جو کنارے سے ٹوٹ کر الگ ہوگئے تھے۔۔۔۔ اسے کہیں کچھ نظر نہ آیا۔وہ مایوس ہوگئی تھی۔
پھر وہ تھوڑا اور آگے گئی ، وہاں اس نے برف کا ایک ٹکڑا دیکھا جس پر کوئی چیز اُچھل کود کر رہی تھی ، وہ تیزی سے اس طرف گئی۔ برف کا وہ ٹکڑا پانی میں غوطے کھا رہا تھا اور گہرے پانی کی طرف جا رہا تھا۔ بڑی وہیل نے قریب جا کر دیکھاتو اس پر ایک چھوٹا سا بچہ تھا ۔
’’ آئس برگ۔۔۔۔! کیا تم ہی آئس برگ ہو ۔۔۔۔؟ ‘‘ بڑی وہیل نے بچے سے پوچھا
’’ہاں میں ہی آئس برگ ہوں۔۔۔۔میں کہاں ہوں۔۔۔۔؟ ‘‘ آئس برگ نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا
’’ بچاؤ۔۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔!‘‘جب آئس برگ نے دیکھا کہ وہ سمندر کے درمیان ہے اور ڈوبنے ہی والا ہے تو وہ خوف سے چیخنے لگا
بڑی وہیل نے اس برف کے ٹکڑے کو اپنی ناک سے کنارے کی طرف دھکیلنا شروع کیا ، آئس برگ ڈر کر اُس ٹکڑے سے چمٹا ہوا تھا۔ جب وہ کنارے کے قریب پہنچے اور آئس برگ نے اپنے ممی پاپا کو دیکھا تو ڈر بھول گیا اور خوشی سے اُچھلنے اور چِلانے لگا
’’ ممی۔۔۔۔ پاپا۔۔۔۔میں یہاں ہوں، میں یہاں ہوں۔۔۔۔!‘‘
فروسٹی اور آئس لِن اپنے بیٹے آئس برگ کی آواز سن کر جاگ گئے، باقی لوگوں کی آنکھ بھی کھل گئی ۔ اُنہوں نے دیکھا کہ آئس برگ برف کے ایک ٹکڑے پر ہے اور بڑی وہیل اسے دھکیل کر لا رہی ہے۔ وہ سب خوشی سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
کچھ ہی دیر میں آئس برگ اپنی ممی کی گود میں تھااور ممی پاپا کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے
’’ آئندہ کبھی اس طرح طوفان میں گھر سے اکیلے نہیں نکلنامیرے بچے۔‘‘ ممی نے اسے نصیحت کی
’’ ہاں بیٹا۔۔۔۔تم نے تو ہماری جان ہی نکال دی تھی۔‘‘ پاپا بولے
’’ تمہارا بہت شکریہ کہ تم نے ہمارے بچے کی جان بچائی اور اسے ہم سے ملا دیا۔ ‘‘ ممی پاپا نے بڑی وہیل کا شکریہ ادا کیا
فروسٹی اور آئس لِن بہت خوش تھے کیونکہ نا صرف انہیں ان کا گمشدہ بچہ مل گیا تھا بلکہ اس تھوڑی سی دیر میں اُنہوں نے بہت سے اچھے دوستوں کو بھی پا لیا تھا۔۔۔۔۔۔! ٹکس پینگوئن ، کول سیل، ٹسک والرس ، ٹنڈرا برفانی بارہ سنگھا ، سقراط برفانی اُلو،اور بڑی وہیل یہ سب اب بہت اچھے دوست تھے۔پینگوئن آئس برگ کو اپنی سلائڈ پر کھِلاتا تھا۔سیل اور والرس اس کو مچھلیاں پکڑنا سکھاتے تھے۔اُلو اس کو مزے مزے کے قصّے سناتا تھا۔اور بڑی وہیل بھی اس کی نگرانی کرتی تھی کہ وہ کہیں پھر سے سمندر میں نہ گِر جائے۔
اس کے بعد ننھا آئس برگ پھر کبھی برفانی طوفان میں گم نہیں ہوا کیونکہ اب اس کی نگرانی کرنے کے لئے اتنے بہت سارے لوگ جو تھے۔۔۔۔۔وہ ہر وقت ننھے ریچھ کا خیال رکھتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔