حماد ’’ہیمی‘‘ کیسے بن گیا
ایک لڑکے کا دل تبدیل کیا گیا تو …… وہ بھی بدل گیا
حماد نے جب اے لیول میں ٹاپ کیا تو انگلینڈ سے اس کو اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپ آفر ہوئی ۔ ظاہر ہے کہ یہ آفر حماد اور اس کے والدین کے لیے ایک اعزاز تھی ۔ زیادہ تر والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ولایت سے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کریں ۔
حماد گھر میں سب سے بڑا تھا ۔ اس سے چھوٹی بہن فائزہ تھی جو او لیول کر رہی تھی اور اس سے چھوٹا ایک بھائی حمزہ تھا جو آٹھویں کلاس میں پڑھ رہا تھا ۔ حماد بے حد سنجیدہ اور کم گو لڑکا تھا ، وہ اپنی پڑھائی اور اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ گھر میں بھی وہ اتنا سنجیدہ رہتا تھا کہ اس کے چھوٹے بہن بھائی بھی اس سے بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ جب وہ گھر میں ہوتا تو گھر میں کرفیو کا سا ماحول رہتا تھا اور انتہائی گہری خاموشی اور سنجیدگی گھر پر چھائی رہتی تھی ۔
حماد کو اتنا سنجیدہ اور بڑا بنانے میں امی کا بھی ہاتھ تھا۔ وہ ہر وقت چھوٹے بہن بھائی کو ڈانتی رہتی تھیں کہ شور نہیں کرنا، بھائی پڑھ رہا ہے ۔ ٹی وی اونچی آواز سے نہیں چلانا، بھائی سو رہا ہے ۔ پہلے بھائی کو کھانا کھانے دو ، وہ بڑا ہے ، وغیرہ۔ فائزہ اور حمزہ کو سارا دن اسی قسم کی باتیں سننے کو ملتی تھیں ۔ جبکہ وہ دونوں بہت خوش مزاج اور خاصی چُلبلی طبیعت کے تھے ۔ ان کا دل چاہتا تھا کہ گھر میں ہنسی مذاق ہو ، بڑے بھائی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں ۔ بے شک وہ ڈانٹ لے لیکن کبھی تو پیار سے بھی بات کرے ۔ فائزہ اور حمزہ کی آپس میں بہت دوستی تھی ، اُنہیں ہر وقت شرارتیں سوجھتی تھیں جس کی وجہ سے سارا دن امی سے ڈانٹ بھی پڑتی رہتی تھی ۔ وہ دونوں دُعا کرتے تھے کہ یا اللہ تھوڑی سی حسِ مزاح حماد بھائی کو بھی دے دے ۔
جب حماد بھائی چار سال کے لیے ولایت چلے گئے تو فائزہ اور حمزہ نے بہت شکر کیا۔ اب گھر پر ہمارا راج ہوگا اور ہمارا گھر بھی ایک گھر لگے گا ۔ اس کے بعد فائزہ اور حمزہ نے گھر کو شرارتوں کا اکھاڑا بنا لیا ۔ ابو تو ان کی شرارتوں سے بہت خوش ہوتے تھے، البتہ امی بے زار رہتی تھیں ۔
حماد انگلینڈ جانے کے بعد ہر ہفتے باقاعدگی سے گھر فون کرتا تھا اور اپنی روزانہ کی روٹین کے بارے میں بتاتا رہتا تھا ۔ پھر آہستہ آہستہ جوں جوں مصروفیات بڑھنے لگیں تو اس نے ایک ماہ بعد فون کرنا شروع کردیا ۔ ظاہر ہے جب پڑھائی زیادہ ہوگئی تو حماد جیسا پڑھاکو لڑکا پڑھائی کے لیے اور بھی سنجیدہ ہوگیا ۔ اس کے امی ابو کو پتا تھا کہ ہمارا بیٹا پڑھائی کے علاوہ اور کچھ نہیں کرے گا ۔ اس لیے اگر دو ماہ اس کا فون نہ آتا تو بھی اُنہیں اطمینان ہوتا تھا کہ وہ پڑھائی میں مصروف ہوگا ۔
اسی طرح تین سال گزر گئے ۔ حماد اپنی خیریت اور اپنی پڑھائی کی رپورٹس دیتا رہتا تھا جن میں وہ ابھی تک سب سے آگے تھا ۔ اس کی کامیابیوں کا ریکارڈ آگے ہی آگے جا رہا تھا ، جس کو توڑنا کسی کے بس میںنہ تھا۔ اس کے اساتذہ اور اس کی یونیورسٹی کو اس پر فخر تھا ۔
چوتھے سال میں حماد کے فون آنا بند ہوگئے ۔ امی ابو سمجھ گئے کہ اس کا آخری تعلیمی سال ہے جس پر اس کی چار سالہ محنت کا دار و مدار ہے، لہٰذاوہ یقیناً اتنا زیادہ مصروف ہوگیا ہوگا کہ اسے فون کرنے کی فرصت کہاں ملتی ہوگی۔ سیل فون کے تو وہ ویسے بھی سخت خلاف تھا ۔ اسے تو فون کی گھنٹی بجتی ہوئی بھی زہر لگتی تھی اور پھر جب سیل فون کسی کے پاس ہو تو ہر کوئی اس سے نمبر مانگتا ہے اور حماد جیسے ذہین طالب علموں سے تو کلاس فیلوز ویسے بھی شہد کی مکھیوں کی طرح چمٹے رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس لیے حماد سیل فون رکھنا حماقت سمجھتا تھا اور جب اس کو فون کرنا ہوتا تھا تو وہ ٹیلی فون بوتھ پر جا کر کرلیتا تھا۔ لہٰذا جب وہ بے حد مصروف ہوتا تھا تو سارا سارا دن کمرے سے نہ نکلتا تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ فون بھی نہیں کرپاتا تھا۔
فائزہ بی اے کر رہی تھی اور حمزہ میٹرک کر چکا تھا ۔ یہ ساڑھے تین سال اُنہوں نے بڑے مزے میں اپنی مرضی اور من مانی کرتے ، ہنستے کھیلتے اور قہقہے لگاتے گزارے تھے ۔ نہ حماد بھائی کی سنجیدگی کا ڈر تھا اور نہ اب امی سے اُس طرح ڈانٹ پڑتی تھی جو حماد بھائی کی وجہ سے پڑتی تھی ۔ فائزہ اور حمزہ اکثر یہ سوچتے تھے کہ کہ اب جب حماد بھائی آئیں گے تو ہم سے دوبارہ وہی سنجیدگی اختیار نہیں کی جائے گی ۔ اب تو ہمیں حماد بھائی کو اور حماد بھائی کو ہمیں بس برداشت ہی کرنا پڑے گا ۔
حماد پڑھائی میں اتنا غرق رہتا کہ اپنی صحت کی طرف سے بالکل غافل ہوگیا تھا ، نہ کوئی کھانے کا وقت نہ کوئی سونے کی پابندی ۔ جنک فوڈ کھا کھا کر گزارہ کرتا تھا ۔ جب فرصت ملتی کوئی برگر کھا لیتا ، کبھی کافی کے ساتھ بسکٹ لے لیتا۔ بس سارا دن چائے یا کافی پی پی کر گزارہ کرتا ۔ نہ کوئی سیر ، نہ چہل قدمی ، نہ کوئی دوست ۔ بس پڑھائی کی ٹینشن ۔ تمام سیر تفریح اس آخری سال میں تو بالکل ختم ہوگئی تھی ۔
صحت کی طرف سے اس لاپروائی اور اسٹریس کا نتیجہ بڑا خطرناک نکلا ۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے اسے گھبراہٹ ہونے لگی اور سینے میں درد اُٹھا ۔ کس کوکہتا ، کمرے میں اکیلا تھا ۔ گھبراہٹ زیادہ ہوئی تو کمرے سے باہر نکل گیا ۔ ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کسی کے نکلنے سے پہلے ہی گر کر بے ہوش ہوگیا ۔ ہاسٹل کے سب لڑکے جمع ہوگئے ، اس کو ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں فوری طور پر اسے ایمرجنسی میں پہنچادیا گیا ۔ ڈاکٹرز نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ بہت شدید قسم کا ہارٹ اٹیک تھا ۔ بچ تو گیا ہے لیکن دل کو زبردست نقصان پہنچا ہے ۔ جس کے سبب اس کا بائی پاس بھی نہیں ہوسکتا۔ ہوش میں تو آگیا ہے ، بظاہر ٹھیک بھی ہے لیکن کمزوری کے باعث کوئی محنت کا کام نہیں کرسکتا ۔ حماد چونکہ بہت لائق طالب علم تھا اور اسکالرشپ پر پڑھ رہا تھا، اسی لیے پوری یونیورسٹی کو اس پر فخر تھا ۔ اب جبکہ اس کا آخری اور انتہائی قیمتی سال تھا اور اس کے ساتھ یہ حادثہ ہوگیا تھا تو اس کے لیے تمام یونیورسٹی پریشان تھی ۔ اس کے سب اساتذہ اور پرنسپل بذاتِ خود ڈاکٹرز سے ملے ۔
’’ ڈاکٹر صاحب ! کچھ کیجیے …… اس نوجوان کو جلد از جلد ٹھیک کردیجیے ۔ آپ نہیں جانتے یہ لڑکا تو یونیورسٹی کے لیے فخر ہے ۔ اس نے ہمارے ادارے کا نام بہت اونچا کردیا ہے ، اور پچھلے تین سال میں اس نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کیے ہیں ۔ یہ اس کا آخری سال ہے۔ اس کا صحت یاب ہونا جتنا اس کے اپنے لیے ضروری ہے ، اتنا ہی ہم سب کے لیے بھی اہم ہے ۔ اس حالت میں ہم بھی اس کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ اس نے اپنے والدین کو اطلاع دینے سے بھی منع کردیا ہے کہ وہ بے حد پریشان ہوں گے اور اس کے آپریشن کے اخراجات بھی برداشت نہیں کرسکیں گے ۔ اب تو ہم ہی اس کے سب کچھ ہیں۔ لہٰذا ہمارا ادارہ اور حکومت اس کے آپریشن کے اخراجات برداشت کریں گے ، ویسے بھی یہ ہمارا ہی فرض بنتا ہے۔ ‘‘
’’ پرنسپل صاحب ، آپ اس کی بالکل فکر نہ کریں ہم سے جو کچھ ہو سکا، ہم ضرور کریں گے ۔ مگر اس وقت تو مسئلہ ہی اتنا پیچیدہ ہے کہ ہم چاہتے ہوئے بھی اس نوجوان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے ۔ ویسے تو اب یہ ٹھیک ہے ، اس طرح بھی زندگی گزار سکتا ہے ، جب تک کہ اسے دوسرا اٹیک نہ ہو اور دوسرا اٹیک کسی بھی وقت ہوسکتا ہے اور اگر نہ ہو تو یہ بہت عرصے بھی زندہ رہ سکتا ہے ، مگر اس طرح صرف زندہ ہی ہوگا کوئی محنت والا کام نہیں کرسکے گا ۔ ‘‘
’’ لیکن ڈاکٹر صاحب یہ تو ابھی نوجوان ہے اور یہ کوئی عام لڑکا نہیں، انتہائی محنتی نوجوان ہے ۔ اس کے سامنے پوری زندگی پڑی ہے ، اور ایسے محنتی نوجوانوں کے لیے توکام کے بغیر زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی ہے ۔ ‘‘
’’ لیکن میں نے بتایا نا کہ اگر اس کا کسی نہ کسی طرح بائی پاس کر بھی دیا تب بھی اس کو اتنا فائدہ نہیں ہوگا ، بلکہ ساری عمر دوسرے ممکنہ اٹیک کے خوف میں ہی گزرے گی۔ ‘‘
’’ چلیں بائی پاس نہ سہی ، کچھ اور تو علاج ہوگا ہی ۔‘‘ پرنسپل صاحب حماد کے لیے بہت فکر مند تھے ۔
’’ ہاں ….. ہے تو سہی ، مگر بہت مہنگا اور مشکل ہے ! ‘‘ ڈاکٹر صاحب سوچتے ہوئے بولے ۔
’’ کتنا مہنگا ….. ؟ میں ہر قیمت پر اس نوجوان کو جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا دیکھنا چاہا ہوں گا ۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے ….. اس کا ایک ہی علاج ہے ۔ وہ ہے ’’ دل کی تبدیلی ، (Heart transplantation) ‘‘ یعنی کسی کا صحت مند دل اس کو لگا دیا جائے ۔ لیکن اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا ۔ ‘‘
’’ کیسا انتظار….. ؟ ‘‘ پرنسپل صاحب بے تابی سے بولے
’’ میرا مطلب ہے کہ اس شخص کی موت کا انتظار جس کا دل اس مریض کے لیے موزوں بھی ہو اور جو دل کا عطیہ بھی دینا چاہتا ہو ۔ اس کی موت اگر جلد ہوجائے گی تو یہ کام جلد ہوجائے گا ۔
’’ اوہ ….. ! اچھا ؟ کتنا عجیب علاج ہے ! ایک شخص کی موت ہی دوسرے کے لیے زندگی کا پیغام ہوسکتی ہے اور کوئی راستہ نہیں ؟ ‘‘
’’ ہوں ….. دوسرا طریقہ ….. وہ اس سے بھی مہنگا ہے ۔ وہ ہے مصنوعی دل لگانا ! ‘‘ ڈاکٹر صاحب سوچتے ہوئے بولے
’’ وہ کیسے لگتا ہے اور اس کی کارکردگی کیسی رہتی ہے ؟ ‘‘ پرنسپل صاحب نے تجسس سے پوچھا ۔
’’ آج کل دو طرح کے مصنوعی دل تیار ہو رہے ہیں ۔ جن میں خون کو آگے دھکیلنے کے لیے مختلف طریقۂ کار استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ایک میں تو پانی کے دبائو کی قوت (Hydraulic Pressure) استعمال ہوتی ہے ، جبکہ دوسرے میں یہ کام ایک پسٹن نما آلے سے لیاجاتا ہے ۔ ان دونوں کے اندر ایسے حساسے (sensors) اور مائیکروپروسیسرز موجود ہیں جو جسم کی ضرورت اور بلڈ پریشر کے مطابق ان کے دھڑکنے کی رفتار کو کم یا زیادہ کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان دونوں میں ایسے آلاتِ ترسیل (Transmitters) بھی موجود ہیں جو ڈاکٹروں کو فون پر ان کی کارکردگی جانچنے کے قابل بنا دیتے ہیں۔ ان طریقوں میں مریض کو اپنے کندھوں پر یا بیلٹ کے ساتھ بیٹری باندھنا پڑتی ہے جس کو حسبِ ضرورت چارج بھی کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بیٹری جِلد کے نیچے پیوستہ تاروں کے ذریعے دل کو توانائی فراہم کرتی ہے ۔دل کے اندر موجود ایک چھوٹی بیٹری جو صرف ایک گھنٹے کے لیے توانائی فراہم کرسکتی ہے ، مریضوں کو اس قابل بنا سکتی ہے کہ وہ نہا لیں یا تیراکی کرلیں ۔ اس قسم کے دل زیادہ تر وقتی طور پر استعمال کیے جاتے ہیں جب تک کہ مریض کو انسانی دل دستیاب نہ ہو ، یا پھر ایسے پیوند کیے گئے دل کے لیے جس کو مریض کے جسم نے مسترد کردیا ہو ، یا پھر ایک بیمار دل کو فوری توانائی پہنچانے کے لیے متبادل کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے ۔
یہ مصنوعی دل سالانہ ساٹھ ہزار مریضوں کے لیے ایک ممکن علاج کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں اور ایسے مریضوں کی جان بچا رہے ہیں جن کے لیے پیوندکاری یا سرجری ممکن نہ ہو ۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے مکمل تفصیل پرنسپل صاحب کو بتائی ۔
’’ تو پھر آپ کو ن سا علاج اس نوجوان کے لیے تجویز کرتے ہیں ؟ ‘‘ پرنسپل صاحب سوچتے ہوئے بولے ۔
’’ میرا تو یہی مشورہ ہے کہ اس کے لیے انسانی دل کی پیوندکاری بہتر رہے گی کیونکہ یہ ابھی نوجوان ہے اور بہت محنتی ہے۔ اس کے لیے تو اسی جیسے کسی محنتی انسان کا دل چاہیے ۔ تب تک اسے مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ دعا کریں کہ اس کے قابل کوئی دل مل جائے ۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب مسکراکر بولے ۔
’’ بالکل ، جب تک اس کے لیے بہتر دل کا انتظام نہ ہوجائے ہم سب دعا کریںگے ۔ ‘‘ پرنسپل صاحب اُٹھتے ہوئے بولے ۔
کچھ دن بعد ہی ڈاکٹر نے پرنسپل صاحب کو بلا لیا اور بولا !
’’ مبارک ہو پرنسپل صاحب ! آپ کے مریض کے لیے دل کا انتظام ہوگیا ہے ۔ ‘‘
’’بہت خوب ڈاکٹر صاحب ….. کون ہے وہ نیک انسان ؟ ‘‘ پرنسپل صاحب نے تجسس سے پوچھا ۔
’’ کل ہی ہسپتال میں ایک شخص کو لایا گیا تھا جس کا بہت شدید ایکسیڈنٹ ہوا تھا ۔ وہ ایک فنکار تھا۔ اس نے بہت پہلے ایک تقریب میں اپنے دل کے عطیے کا اعلان کیا تھا ۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے ہوش میں آیا تھا اور اس نے یہی سوال کیا تھا کہ اگر میں مرگیا تو میرا دل کس کو لگایا جائے گا ؟ میں نے بتایا ایک محنتی طالب علم کو ۔ تواس نے مسکرا کر کہا کہ پھر تو میں اپنے جلد مرنے کی دعا کرتا ہوں ، کیونکہ مجھے علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا جو میں غربت کے باعث نہ کرسکا لیکن میرا دل ایک طالب علم کو مل جائے تومجھے خوشی ہوگی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ مرگیا ہے ۔ ‘‘
’’ اوہ ….. بہت افسوس ہوا ۔ کتنا اچھا انسان تھا جس نے ایک محنتی طالب علم کے لیے نہ صرف دل کا عطیہ دیا بلکہ جان بھی دے دی ۔ میں ایسے عظیم انسان کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں اور ٹریبیوٹ کے طور پر اپنی یونیورسٹی میں اس کے لیے ایک تقریب بھی منعقد کروں گا تاکہ اس کا یہ عمل دوسروں کے لیے ایک روشن مثال بن سکے ۔ ‘‘ پرنسپل صاحب واقعی اس شخص سے بہت متاثر ہوئے ۔
’’ آج کل سائنسدانوں نے ایک نئی چیز بھی متعارف کرائی ہے ۔ ہم نے سوچا لگے ہاتھوں دل کے ساتھ وہ بھی اس نوجوان کو لگا دی جائے تاکہ یہ اور بھی بہت سی بیماریوں سے محفوظ ہوجائے ۔ کیونکہ نوجوان کسی بھی ملک کے لیے سرمایہ ہوتے ہیں اور وہ پھراس جیسے نوجوان تو بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں جن کو ہر طرح سے صحت مند ہونا چاہیے تاکہ وہ بے فکر ہو کر کام کرسکیں۔‘‘
’’ یہ بات تو آپ نے بالکل درست کہی ہے ڈاکٹر صاحب ، مگر وہ نئی دریافت کیا ہے ؟ ‘‘
’’ سائنسدانوں نے خطرناک بیماریوں سے مستقل طور پر نمٹنے کے لیے انسانی جسم کے متبادل نامیاتی اجزاء تیار کیے ہیں جو خون میں شامل ہوکر انسانی جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کی مکمل نگرانی کرتے ہیں ۔ یہ ایک ’’ مائیکروفیکٹری ‘‘ ہے جسے سائنسدانوں نے ’’ لائف 2.0 ‘‘ کا نام دیا ہے ۔ یہ انسانی خلیے ہوتے ہیں جو لیبارٹری میں تیار کیے جاتے ہیں ۔یہ خون میں شامل ہوکر پورے جسم میں گردش کرتے ہیں اور جہاں کہیں کوئی مرض موجود ہوتا ہے، اسے ختم کردیتے ہیں ۔ مثلاً کینسر کی بیماری ہے ۔ لیبارٹری میں تیار کر دہ خلیے کا ایک حصہ کینسر سے متاثرہ حصہ کا جائزہ لے کر اس کی شدت کا اندازہ لگاتا ہے ۔ دوسرا حصہ متاثرہ حصہ پر حملہ کرکے کینسر کے خلیوں کو تباہ کرتا ہے اور تیسرا حصہ اس تباہی کے لیے درکار زہریلا مواد فراہم کرتا ہے اور اس کا چوتھا حصہ اس متاثرہ حصہ کی مستقبل میں نگرانی کرنے کے لیے اس کے گرد جم جاتا ہے تاکہ اگر کینسر دوبارہ حملہ آور ہو تو وہ اسے خلیوں میں سرایت کرنے سے روک سکے ۔ میں نے کینسر کی مثال اس لیے دی کہ پہلے یہ مائیکروفیکٹریاں صرف کینسر اور ملیریا جیسی بیماریوں کے لیے استعمال ہوئیں لیکن اب وہ بھی بہت سی بیماریوں کے لیے کام کر رہی ہیں ۔
اس پراجیکٹ پر انجینئرز ، کمپیوٹر سافٹ ویئر انجینئر ، نفسیات دان ، کیمسٹوں ، سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کی ایک بڑی ٹیم نے کام کیا ۔ یہ مائیکروفیکٹری بالکل ایک سافٹ ویئر پروگرام کی طرح انسانی جسم میں جاری تخریب کارانہ سرگرمیوں پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ یہ سب بایو فیکٹریاں بیماری کے خلیوں کے ساتھ جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مائیکروسافٹ کے سربراہ بِل گیٹس نے بھی اس پراجیکٹ کے لیے 42 ملین ڈالر فراہم کیے تھے۔ اب یہ مائیکروفیکٹری اس نوجوان کے نہ صرف دل کی حفاظت کرے گی اور آیندہ کسی بھی دل کے دورے سے بچائے گی بلکہ اگر اور بھی کوئی بیماری سر اُٹھانے کی کوشش کرے گی تو اس کا بھی سر کچل دے گی ۔ کیسا آئیڈیا ہے ؟ یہ ابھی بالکل نئی دریافت ہے ۔ اس پر بھی خرچہ تو بہت آئے گا لیکن چونکہ اس جیسے نوجوان قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان پر سرمایہ خرچ کرنے میں کنجوسی نہیں کرنی چاہیے ۔ ‘‘
’’ بہت خوب ڈاکٹر صاحب ! بہت اچھے ….. ہماری پوری یونیورسٹی آپ کی شکرگزار ہوگی کہ ہمارے ایک نوجوان کے علاج میں آپ نے کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ۔ ‘‘ پرنسپل صاحب واقعی بہت خوش تھے ۔
کچھ عرصے بعد حماد ایک نئے دل کے ساتھ اپنی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں شفٹ ہوچکا تھا ۔ کئی ہفتوں تک تو اس کے کلاس فیلوز اور اساتذہ اس کی خیریت پوچھنے کے لیے آتے رہے اور وہ بڑی خوش دلی سے سب کا استقبال کرتا۔ اس خوش گوار تبدیلی پر سبھی حیران تھے ۔ سب سے زیادہ خوش تو پرنسپل صاحب اور حماد کے اساتذہ تھے ۔
مکمل صحت مند ہونے کے بعد حماد نے پھر سے پڑھائی شروع کردی اور نئے صحت مند دل کے ساتھ حماد زیادہ خوش اور جوش و خروش کے ساتھ تیاری کر رہا تھا ۔ آخر حماد کے امتحانات بھی ہوگئے اور رزلٹ آتے ہی اس نے واپسی کی بکنگ کرالی تھی ۔
گھر والوں کو اچانک حماد کا پیغام موصول ہوا کہ وہ آج شام کی فلائٹ سے گھر پہنچ رہا ہے تو اُنہیں یقین نہیں آیا۔ اتنے طویل انتظار اور ایک سال کی مکمل خاموشی کے بعد آج اچانک حماد گھر واپس آرہا تھا ۔
’’ ارے میرا بیٹا گھر آرہا ہے ….. ؟ آج شام کو آرہا ہے ….. ؟ اور آپ مجھے اب بتا رہے ہیں ؟ ‘‘ امی خوش سے زیادہ پریشان ہو رہی تھیں۔
’’ بھئی ، مجھے تو خود ابھی پتا چلا ہے میں آپ کو پہلے کیسے بتا دیتا ! ‘‘ ابو بولے
’’ حماد بھائی نے اچانک آکر سب کو حیران ہی کردیا ! ‘‘ فائزہ بولی
’’ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اب ہم ایک دم سے پہلے جیسی سنجیدگی کیسے طاری کریں گے ۔ حماد بھائی نے اپنے آنے کی خبر پہلے سے کردی ہوتی تو ہم کچھ پریکٹس ہی کرلیتے ۔ ‘‘ حمزہ بھی پریشان ہوکر بولا
’’ یہ دیکھو ….. ! یہ کیسے بہن بھائی ہیں ….. ؟ بڑا بھائی اتنے سالوں بعد آرہا ہے اور یہ لوگ خوش ہونے کی بجائے پریشان ہو رہے ہیں ! ‘‘ امی نے ان دونوں کو غصے سے گھورا ۔
’’ ابھی تو بھائی کے آنے کی صرف خبر آئی ہے اور آپ نے ہم دونوں پر پہلے کی طرح پھر سے غصہ ہونا شروع کردیا ہے اور پھر حماد بھائی کے آنے کی خبر سن کر آپ بھی تو پریشان ہوگئی ہیں ۔ ‘‘ حمزہ کچھ زیادہ ہی زبان دراز ہوگیا تھا ۔
’’ اوہو ….. بھئی میں تو اس لیے پریشان ہوگئی ہوں کہ میرا بچہ اتنے سالوں بعد آرہا ہے اور گھر میں کچھ بھی اس کی پسند کا کھانا بنا ہوا نہیں ہے ، اور اگر اس کی پسند کا کھانا نہ ہو تو وہ کھانا ہی نہیں کھاتا ۔ اب بتائو میں کیا کروں ؟ وہ کہے گا کہ میرے لیے امی نے کچھ بھی نہیں بنایا ۔ ‘‘ امی نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی ۔
’’ ارے….. میری پیاری امی اس لیے پریشان تھیں ؟ آپ اس کی بالکل فکر نہ کریں ۔ دیکھنا اتنے سال باہر رہ کر اور برگر کھا کھا کر بھائی کا دماغ بالکل درست ہوچکا ہوگا اور آپ جو کچھ بھی ان کے آگے رکھ دیں گی نا وہ چپ کرکے کھا لیں گے۔‘‘ حمزہ بولا
’’ حمزہ ! تم بہت بدتمیز ہوگئے ہو ۔ یہ کیا طریقہ ہے بڑے بھائی کے بارے میں بات کرنے کا ۔ چلو جلدی سے مجھے سودا لاکر دو تاکہ میں اپنے بیٹے کے لیے اس کی پسند کا کھانا بنا سکوں ۔ ‘‘ امی ناراض ہوتے ہوئے بولیں۔
’’ ہاں وہی تو ایک آپ کا بیٹا ہے ………. حمزہ تو نوکر ہے نا ؟ ‘‘
’’ چلو بھئی ! جسے جو کرنا ہے جلدی جلدی کرلے ، فلائٹ کا ٹائم ہو رہا ہے ۔ چلو حمزہ جو تمہاری امی کہہ رہی ہیں ، وہ جلدی سے لاکر دو پھر ایئرپورٹ بھی جانا ہے ۔ ایئرپورٹ ہے بھی اتنا دور۔ جانے میں بھی ایک گھنٹہ لگے گا ۔ ‘‘ ابو نے کہا
’’ امی کیا آپ ایئرپورٹ نہیں چلیں گی ؟ ‘‘ فائزہ نے پوچھا
’’ نہیں بیٹے ، میں کیسے جاسکتی ہوں ؟ مجھے توابھی حماد کی پسند کا کھانا بھی تیار کرنا ہے ، پھر میرے بیٹے نے گھر ہی تو آنا ہے اور وہ آتے ہی پوچھے گا ….. امی کھانے میں کیا ہے ؟ تو میں کیا جواب دوں گی ؟ اور فائزہ تم کہاں جانے کے لیے تیار کھڑی ہو؟ جائو جاکر بھائی کا کمرہ درست کرو ۔ یہ زیادہ ضروری کام ہے ۔ اتنا لمبا سفر کرکے آرہا ہے میرا بچہ، بہت تھک گیا ہوگا ۔ ہوسکتا ہے آتے ہی آرام کرنا چاہے ۔ ‘‘ امی نے فائزہ کو بھی آرڈر دے دیا ۔
’’ ہاں ! چار سال کی تھکن ابھی تو اتاریں گے ….. ‘‘ فائزہ بڑبڑاتی ہوئی کمرہ ٹھیک کرنے چلی گئی ۔
حمزہ سودا لے آیا تو وہ اور ابو ایئرپورٹ روانہ ہوگئے اور امی جلدی سے کچن میں گھس گئیں اور حماد کی پسند کا کھانا تیار کرنے میں مصروف ہوگئیں ۔ جبکہ فائزہ بھائی کا کمرہ درست کرنے لگی ۔
’’ اوہو ….. ٹائم تو ہوگیا ہے اور میں نے ابھی تک سویٹ ڈش بھی نہیں بنائی ۔ ‘‘ امی نے گھڑی دیکھتے ہوئے دودھ چولھے پر رکھا ہی تھا کہ کچن کا دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا ۔ امی نے پیچھے مُڑ کردیکھا !
’’ او ….. مائی سویٹ موم ….. دیکھیں آپ کا ’’ ہیمی ‘‘ آگیا اور آپ کچن میں لگی ہیں ۔ چلیں باہر آئیں ۔ ‘‘
کوئی عجیب و غریب سے حلیے کا لڑکا آکر امی سی لپٹ گیا اور امی ہکا بکا کبھی اسے دیکھتیں تو کبھی اس کے پیچھے کھڑے ابو کو ۔
’’ دیکھیں امی….. ہم ایئرپورٹ سے کیا چیز لائے ہیں ؟ ‘‘ ان سب کے پیچھے کھڑا حمزہ مذاق اُڑانے کے انداز میں بولا، جس پر حماد خود بھی ہنس پڑا اور امی کی حیرت میں اور اضافہ ہوگیا کہ حمزہ کی بات کا برا منانے کے بجائے یہ الٹا ہنس رہا ہے ۔
’’ ارے …..حماد بھائی ! یہ آپ نے کیا حلیہ بنا رکھا ہے ؟ آپ کتنے بدل گئے ہیں ؟ ‘‘ پیچھے سے آتی فائزہ وہیں رُک کر بولی۔
’’ اوہ ….. مائی لٹل سسٹر فِزی ! اور تم بالکل ویسی کی ویسی ہو ! حماد اس کو گلے لگاتا ہوا بولا ۔
’’ میرا حماد بیٹا ٹھیک تو ہے نا ؟ لگتا ہے اتنے سال تک کچھ نہیں کھایا پیا ، وہ لوگ بھوکا رکھ کر تعلیم دیتے ہیں کیا ؟ کتنا کمزور لگ رہا ہے میرا بچہ ! بالکل بیمار لگ رہا ہے !‘‘ امی اس کو غور سے دیکھتے ہوئے پیار سے بولیں۔
’’ او ….. مائی ڈیئر موم ….. ! آپ بالکل پریشان نہ ہوں ، میں ٹھیک ہوں ۔ اب یہاں آگیا ہوں نا تو اور بھی ٹھیک ہوجائوں گا ۔ اور ’’ واٹ از حماد‘‘ آپ مجھے ’’ ہیمی ‘‘ بلائیں نا ! ۔ ‘‘ حماد امی کے گلے میں بازو ڈالتا ہوا بولا ۔
’’ ڈیڈ….. میں اپنا رزلٹ تو بتانا ہی بھول گیا….. میں نے اپنی یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے اور لاسٹ ہول سینچری کا ریکارڈ بریک کیا ہے جس پر مجھے ایوارڈ ، میڈل اور ہیوی کیش پرائز ملے گا ۔ آپ سب کو اس سیریمونی میں انوائیٹ کیاگیا ہے اور میں آپ کو لینے آیا ہوں ۔ اسی لیے میں نے سرپرائز وزِٹ کیا ہے ۔ برٹش پرائم منسٹر مجھے یہ ایوارڈ دیں گے ۔ ‘‘ حماد ابو کے گلے میں بازو ڈال کر بولا ۔
’’ ویل ڈن ….. بیٹا ویل ڈن ! ہمیں تو پہلے ہی امید تھی کہ ہمارا حماد بیٹا ، میرا مطلب ہے ہیمی بیٹا کوئی نہ کوئی ریکارڈ ضرور بنائے گا ۔ ‘‘ ابو بھی اسے گلے لگاتے ہوئے بولے ، ’’ ہم ضرور چلیں گے بیٹا، ضرور چلیں گے ، اس سے زیادہ کسی ماں باپ کے لیے فخر کی اور کیا بات ہوگی کہ ان کی اولاد ولایت جاکر ٹاپ کرے اور پوری صدی کا ریکارڈ توڑ کر نئے ریکارڈ قائم کرے ۔ جیتے رہو بیٹا تم نے تو ہمیشہ ہی ہمارا سر فخر سے بلند کیا ہے ۔
’’ مبارک ہو بھائی ….. بہت بہت مبارک ہو ۔ ‘‘ فائزہ نے بھی خوشی کا اظہار کیا ۔
’’ واہ ….. ہیمی بھائی آپ نے تو کمال ہی کردیا ۔ ‘‘ حمزہ خوشی سے حماد سے لپٹتا ہوا بولا ، ’’ آہ ………. کتنا مزہ آئے گا ہم سب انگلینڈ جائیں گے ۔ ‘‘
’’ اور ڈیڈ مجھے اپنی یونیورسٹی سے بھی جاب کی آفر ہے اور بہت سے بڑے بڑے ملٹی نیشنل اداروں سے بھی بہت اچھی اچھی آفرز ہیں ، مگر میں نے سوچا ہے کہ میں اپنی یونیورسٹی کی آفر ہی ایکسیپٹ کروں گا ۔ ‘‘ ہیمی نے خوشی خوشی بتایا۔
’’ کیوں بھائی ! یونیورسٹی کی آفر کیوں قبول کرو گے ۔ سب سے اچھی جاب تو ملٹی نیشنل اداروں کی ہوتی ہے ، تنخواہ بھی اچھی ہوتی ہے اور تجربہ بھی اسی کا اہمیت رکھتا ہے ! ‘‘ حمزہ بیچ میں بولا ۔
’’ مائی ڈیئر لٹل برادر ….. ایک تو مجھے خود یونیورسٹی میں پڑھانا اچھا لگتا ہے ، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے ، انہوں نے تو مجھے فری ہینڈ آفر دی تھی لیکن احسان کا بدلہ تو احسان ہی ہوتا ہے نا ڈیڈ ۔ ‘‘ ہیمی تھوڑا جذباتی ہوگیا ا
’’ بے شک بیٹا ! احسان کا بدلہ سوائے احسان کے اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔‘‘ ابو نے جواب دیا ، لیکن حماد کی اس بات سے بھی وہ چونک گئے کہ ایسا کیا ہوا ہے جس کے لیے یہ اپنی یونیورسٹی کا اتنا احسان مند ہے ۔
’’ ایسا کیااحسان کیا ہے آپ پر اس یونیورسٹی نے جو آپ مجبور ہوگئے ہیں ، ہیمی بھائی ؟‘‘ حمزہ پھر بیچ میں بولا ۔
’’ ہر بات بتانے والی نہیں ہوتی ، میرے لیے یہ بھی بہت بڑا اعزاز ہے کہ مجھے اتنی بڑی یونیورسٹی سے لیکچرر شپ آفر ہوئی ہے۔‘‘
اور امی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہیں الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ بیٹے کی اتنی بڑی کامیابی پر خوشی کا اظہار کس طرح کریں۔
’’ او ….. مائی ڈیئر موم ! نو ٹیئرز موم ، نو مور ٹیئرز پلیز ! کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی ؟ آپ کیوں رونے لگیں ! ‘‘ حماد ان کے آنسو صاف کرنے لگا ۔
’’ نہیں بیٹا ! یہ تو خوشی کے آنسو ہیں ۔ جب خوشی کے اظہار کے لیے الفاظ نہ ملیں تو پھر آنسو کل آتے ہیں ۔ میں بیان نہیں کرسکتی کہ مجھے کتنی خوشی ہے ۔ تمہاری ساری محنت اور میری ساری دعائیں رنگ لے آئی ہیں ۔ میں خدا کی بہت شکرگزار ہوں۔ اب شکریے کے نوافل پڑھوں گی اور سارے میں مٹھائی بانٹوں گی ۔ ‘‘ امی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں ۔ آنسو تو بہت آرہے تھے مگر حماد نے مزید رونے سے منع کردیا تھا اس لیے امی نے سب آنسو پونچھ ڈالے ۔
’’ ہیمی بھائی ! کیا آپ نے وہاں ایکٹنگ شروع کردی تھی ؟ ‘‘ حمزہ نے حماد کی باتوں اور حرکتوں پر محظوظ ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ کیوں ….. لٹل برادر حِزی ! تم نے ایسا کیوں پوچھا ؟ حماد حیران ہوتے ہوئے بولا کیونکہ وہ تو اب بھی اپنے آپ کو بہت سنجیدہ سمجھ رہا تھا ۔
’’ حماد بھائی ….. میں حمزہ ہی ٹھیک ہوں ، آپ میرا نام نہ بگاڑیں ۔ میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ آپ کی حرکتوں سے لگ رہا ہے کہ آپ بہت عرصہ تک ایکٹنگ کرتے رہے ہیں اور آپ نے نام بھی بدل لیا ہے ! ‘‘
’’ حمزہ ….. ! یہ بڑے بھائی سے بات کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ بہت بدتمیز ہوگئے ہو ، شکر کرو کہ اس کا غصہ کچھ کم ہوگیا ہے، ورنہ تمہاری تو خود ہر بات ایسی ہوتی ہے جس پر ڈانٹا جائے ۔ ‘‘ امی نے اسے ڈانٹا ۔ ابو اور فائزہ نے بھی اسے گھور کر دیکھا۔
حماد پہلے جیسا حماد نہ تھا، یکسر بدل گیا تھا ۔ یہ تبدیلی سبھی نے محسوس کی تھی مگر اس طرح سے منہ پر کہہ دینے کی جرأت تو ابھی ابو نے بھی نہ کی تھی کہ کہیں حماد کی دل شکنی نہ ہو ، وہ سوچے گا کہ آتے ہی مجھ پر تنقید شروع کردی ۔ اس لیے سب کو حمزہ کی اس حرکت پر غصہ آگیا تھا ۔
’’ کوئی بات نہیں موم …… آپ لٹل برادر کو مت ڈانٹو ، میں نے برا نہیں منایا ۔ وہاں میرے سب فرینڈز بھی مجھے یہی کہتے تھے کہ تم بہت بدل گئے ہو ۔ انہوں نے ہی میرا نام ہیمی رکھا تو مجھے یہ نام بہت پسند آیا ۔ ‘‘ حماد کی اس بات پر بھی سب کو حیرت ہو رہی تھی کہ وہ پہلے سے کس طرح بدل گیا جو اس کے دوستوں نے بھی محسوس کیا مگر اس کو پتا ہی نہیں ہے کہ یہ کتنا بدل گیا ہے اور پھر یہ تو دوست بنانے کے بھی خلاف تھا اور آخری وقت تک ہمیں یہی بتاتا تھا کہ اس نے کوئی دوست نہیں بنایا ، پھر یہ کن دوستوں کا ذکر کر رہا ہے ؟ ضرور کوئی بڑی بات ہوئی ہے جس کا اسے خود بھی علم نہیں ہے یا یہ بتانا نہیں چاہتا ۔ باہر جاکر اکثر انسان بدل تو جاتے ہیں مگر اس قدر نہیں بدل سکتے کہ ان کی ہر بات ہی بدل جائے ۔ ابو کو تو اس پر شک ہونے لگا تھا کہ یا تو وہ بقول حمزہ کے بہت زیادہ ایکٹنگ کر رہا ہے یا پھر وہ حماد ہی نہیں ہے ، بدلا گیا ہے ۔
خیر اس وقت تو ابو اور امی نے اس موضوع پر بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور امی نے فوراً کھانا لگا دیا ، کیونکہ کھانے کا وقت ہوگیا تھا اور سبھی کو بہت بھوک لگ رہی تھی ، سوائے حماد کے ، جس کے لیے اتنا اہتمام کیا گیا تھا ۔ لیکن وہ بقول حمزہ کے برگر کھا کھا کر بھوکا رہنے کا عادی بھی ہوگیا تھا اور گھی ، مرچ ، مسالوں والے کھانوں کو تو وہ خاص طور پر بالکل بھول چکا تھا جس کا امی کو بھی خیال نہ رہا تھا اور اب یہ سب کھانے گھر والوں ہی کو کھانے تھے حماد تو بالکل نہیں کھا سکتا تھا ۔ لہٰذا اس بے چارے نے حسبِ عادت چائے کے ساتھ دو سلائس لے لیے تھے جس پر امی کو بہت دکھ ہو رہا تھا کہ اتنی محنت ضائع گئی ۔ میرا بچہ تو بھوکا ہی رہا ۔
کھانے کے بعد حماد نے سب کو وہ تحائف دکھائے جو وہ امی ، ابو اور بہن بھائی کے لیے لایا تھا ۔ یہ بھی ایک حیرت انگیز مرحلہ تھا ۔ اس کے لائے ہوئے تحائف بلا شبہ بہت اچھے اور قیمتی تھے لیکن یہ سب حماد کی پہلے والی پسند سے بالکل مختلف تھے ۔ تھوڑی دیر باتیں اور تحائف پر تبصرہ کرکے سب سونے چلے گئے ۔ ایک ہفتہ اسی طرح باتوں ہی باتوں میں گزر گیا تھا ، پتہ بھی نہ چلا ۔ ہیمی اپنے ہی قصے سناتا رہتا ۔
ایک ہفتے بعد سب لوگ ہیمی کی ایوارڈ سیریمونی میں شرکت کے لیے انگلینڈ روانہ ہوگئے ۔ وہاں اس تقریب کی تیاریاں بڑے زور و شور سے جاری تھیں ۔ یونیورسٹی میں بہت گہما گہمی تھی ۔ ہیمی کے گھر والوں کے لیے رہائش کا خاص انتظام تھا۔ لیکن ہیمی کے ابو اس کے پرنسپل سے ملنے کے لیے بے چین تھے ۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ حماد تبدیل کیسے ہوگیا ہے ۔
اگلے دن ابو نے پرنسپل صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو ہیمی ان سب کو پرنسپل سے اجازت لے کر ان کے پاس ملوانے کے لیے لے گیا ۔ پرنسپل صاحب ہیمی کے والدین اور ہن بھائیوں سے مل کر بہت خوش ہوئے اور ان سب سے باتوں میں لگ گئے۔ ہیمی کے بہت سے دوست اس سے ملنے کے لیے بے چین تھے، لہٰذا وہ اِن سب سے اجازت لے کر دوستوں کے ساتھ چلا گیا ۔ اس طرح ابو کو حماد کے بارے میں پرنسپل سے بات کرنے کا موقع مل گیا اور ابتدائی رسمی باتیں کرنے کے بعد ابو اپنے موضوع پر آگئے ، وہ بولے :
’’ پرنسپل صاحب ، میں آپ سے حماد کے بارے میں ایک بہت اہم بات پوچھنا چاہتا ہوں جس نے ہم سب کو بہت پریشان کر رکھا ہے ، وہ یہ کہ ہمارا ’’ حماد ہیمی کیسے بن گیا ؟ ‘‘ حالانکہ وہ ایسا لڑکا بالکل نہیں تھا کہ کسی اور ماحول میں رہ کر بدل جائے ، حتیٰ کہ اس نے تو اپنا نام تک بدل لیا حالانکہ اسے تو ایسی حرکتوں سے خود نفرت تھی ۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنے سمجھدار لڑکے کو کیا ہوگیا ہے اور زیادہ پریشانی والی بات یہ ہے کہ اسے خود بھی علم نہیں کہ وہ اتنا کیسے بدل گیا ۔ ‘‘
’’ آپ لوگوں کی پریشانی بالکل بجا ہے ۔ ویسے تو یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے ، کیونکہ حماد کی بے حد سنجیدہ طبیعت خُود اس کے لیے اور شاید آپ لوگوں کے لیے بھی مشکل کا باعث بنتی ہوگی ۔ یہ ہمارے لیے بھی حیرت کی بات تھی کہ حماد بالکل بدل گیا ہے لیکن اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہے ۔ پہلے تو ہمیں حماد نے سختی سے منع کیا تھا کہ میرے گھر والوں کو اس کا علم نہ ہو کیونکہ وہ پریشان ہوں گے لیکن اب جبکہ خدا کا شکر ہے کہ وہ انتہائی پریشانی کا دور گزر گیا اور حماد بالکل تندرست ہوگیا ہے تو آپ لوگوں کی پریشانی کم کرنے کے لیے بتانے میں کوئی ہرج بھی نہیں ہے ۔ ‘‘
’’ پرنسپل صاحب ! حماد کو کیا ہوا تھا جلدی بتائیے ؟ ‘‘ ابو بے تابی سے کرسی پر پہلو بدل کر بولے ۔
’’ اس کو اس کی بے حد سنجیدہ طبیعت اور بغیر اپنی صحت کا خیال کیے دن رات پڑھنے کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا۔ ‘‘
’’ کیا ….. ؟ ‘‘ ابو اپنی کرسی سے ایسے اُچھلے جیسے کرنٹ لگا ہو ، یہی حال فائزہ اور حمزہ کا بھی ہوا ۔ وہ شکر کر رہے تھے کہ امی نہیں ہیں ۔
’’ ہارٹ اٹیک ….. ہارٹ اٹیک ؟ پرنسپل صاحب ! میرے بچے کو ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا ، یہ کسے ہوسکتا ہے ؟ ‘‘ ابوبے یقینی سے بولے
’’ جناب ! ہونے کو کیا نہیں ہوسکتا، دنیا میں وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جس کا کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے اور پھر آج کل کی ٹینشن زدہ زندگی نے تو ہر محنت کرنے والے اور ایک حساس دل و دماغ رکھنے والے انسان پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے ، کیا بچے ، کیا جوان اور کیا بوڑھے ۔ بلکہ جو انسان خیر خیریت کے ساتھ بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے میں کامیاب ہوجائے وہ تو سمجھیں کہ بہت خوش قسمت ہے ۔ پرنسپل صاحب نے کہا اور حماد کے ابو گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔
’’ دیکھیے جناب ! جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا نا ، اب آپ بالکل پریشان نہ ہوں اب تو آپ کا بچہ سُپر فٹ ہے ، دل سمیت اس کا ہر ہر عضو ایک دم فٹ ہے اور اب کوئی بیماری بھی اس کے قریب نہیں آسکتی ۔ بیماری تو بیماری موت کا فرشتہ بھی اس کے پاس آنے سے کترائے گا ۔ ‘‘ پرنسپل صاحب نے ابو کو اطمینان دلانے کی کوشش کی ۔
’’ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ ہارٹ اٹیک تو دوبارہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے ! ابو بے حد مغموم ہو رہے تھے ۔
سب کی تسلی کے لیے پرنسپل صاحب نے شروع سے آخر تک حماد کی بیماری سے لے کر صحت یابی تک کہانی سنا ڈالی ۔ ابو ، فائزہ اور حمزہ بت بنے حماد کے عجیب و غریب آپریشن کی روداد سن رہے تھے ، فائزہ کی تو آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے تھے ، ابو اور حمزہ کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی ۔ حمزہ بہت شرمندہ بھی ہو رہا تھا کہ اس نے ناحق حماد بھائی کی باتوں اور عادتوں کا مذاق اُڑایا ۔
’’ اب بھی اگر آپ کی تسلی نہ ہوئی ہو تو میں ان ڈاکٹر صاحب سے آپ کی بات کرا دیتا ہوں جنہوں نے حماد کا آپریشن کیا تھا۔‘‘ پرنسپل نے کہا ۔
’’ حد ہوگئی ! پرنسپل صاحب ، ہمارے بچے کے ساتھ یہاں پردیس میں اتنا کچھ ہوگیا اور کسی نے ہمیں اطلاع دینا بھی گوارا نہیں کیا ۔ ہم تو بالکل بے خبر رہے اور اگر خدا نہ خواستہ ہمارے بچے کو کچھ ہو جاتا تب بھی ہمیں علم نہ ہوتا ۔ یہ آپ کا کیسا نظام ہے کہ والدین کو بے خبر رکھا جاتا ہے ۔ ‘‘
’’ میں اور اس یونیورسٹی کے تمام اساتذہ حماد کو اپنے بچوں کی طرح چاہتے ہیں اور ہم سب نے اس کے لیے وہ سب کچھ کیا جو شاید آپ خود اپنے ملک میں رہتے ہوئے کبھی بھی نہ کرسکتے ، اور یہاں ہوتے تب بھی سوائے پریشان ہونے کے کچھ نہ کرسکتے اور اگر خدا نہ خواستہ اسے کچھ ہو جاتا تو ہم اپنے ایک ہونہار طالب علم کی صحت کی جانب سے غفلت کی سزا میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کرتے۔ میں نے اور میرے اساتذہ نے اس کی تیمارداری میں دن رات ایک کردیا تھا ۔ ہم اپنے فرض سے بالکل غافل نہیں ہیں ۔ یہ تو آپ کے بیٹے کی اپنی ضد تھی کہ آپ لوگوں کو کچھ نہ بتایا جائے ، بلکہ اس طرح سے ہمارا کام اور بڑھ گیا تھا کہ ہر طرح کی ذمہ داری ہم پر ہی آگئی تھی جس کو ہم نے جی جان سے نبھایا ۔ آپ لوگ بہت جذباتی ہیں ۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ حماد نے آپ لوگوں کو اطلاع نہ کرکے بالکل ٹھیک کیا تھا ۔
فائزہ نے جب حالات زیادہ سنجیدہ ہوتے دیکھے تو ان کا دھیان ان باتوں سے ہٹانے کے لیے اس نے پوچھا !
’’ لیکن پرنسپل صاحب ! وہ بیماری اور وہ آپریشن ، وہ سب تو ٹھیک ہے مگر ان سب باتوں سے حماد بھائی کی شخصیت کا کیا تعلق ہے ؟ وہ کیسے اتنی بدل گئی ؟
’’ شخصیت کا انسان کے دل سے تو گہرا تعلق ہوتا ہے نا ۔ آپ لوگوں نے اُس شخص کے بارے میں تو ابھی تک پوچھا نہیں کہ وہ کون تھا ؟ اور کیا کرتا تھا ، جس عظیم انسان نے حماد کو اپنے دل کا عطیہ دیا تھا ؟ اس نے جب یہ سنا کہ اس کا دل ایک ہونہار طالب علم کو لگایا جائے گا تو اس نے کہا کہ میں ایک ان پڑھ انسان ہوں اور بچپن میں غربت کے باعث تعلیم حاصل نہ کرسکا لیکن میں علم کی اہمیت سے بہت اچھی طرح واقف ہوں ، اس لیے میں اپنی جلد از جلد موت کی دعا مانگتا ہوں تاکہ میرا دل اس ہونہار طالب علم کو لگ جائے ۔ اس طرح میرے دل کو تسلی رہے گی کہ وہ ایک تعلیم یافتہ انسان کے پاس ہے اور چند دن بعد ہی اس شخص کا انتقال ہوگیا تھا ۔ کیا اس شخص کی طبیعت اور فطرت کا حماد پر اثر نہیں ہوا ہوگا ؟ اس لیے کچھ نہ کچھ تبدیلی تو آنی ہی تھی ، لیکن شکر ہے کہ وہ اچھی تبدیلی ہے بُری نہیں ؟ ‘‘
’’ کون تھا وہ عظیم انسان پرنسپل صاحب اور کیا کرتا تھا ؟ ‘‘ فائزہ اور حمزہ نے بیک وقت پوچھا ۔
’’ وہ ایک فنکار تھا ! ایک کامیڈین تھا ! ‘‘ پرنسپل صاحب بولے ۔
’’ کامیڈین ! ‘‘ ان سب نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا ۔
’’ وہ علم کا تمنائی تھا لہٰذا اس کا عطیہ ایک طالب علم کو مل گیا اور اس کی یہ نیکی اس طرح کام آگئی جس سے اس کے دل کو تسلی ہوگئی ، اور حماد ایک بے حد سنجیدہ لڑکا تھا ۔ اسے حسِ مزاح کی سخت ضرورت تھی لہٰذا اسے ایک کامیڈین کا دل مل گیا ، جس سے اس کو فائدہ ہوگیا اور اس کی طبیعت میں بہتر تبدیلی آگئی اور اس طرح ’’ حماد ہیمی بن گیا ‘‘ ۔ مجھے امید ہے کہ اب تو آپ کو اس کے ہیمی بننے پر کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔ ‘‘
فائزہ اور حمزہ نے ایک دوسرے کو دیکھا اور مسکرائے ۔ اُنھیں لگا کہ ان کی دعا پوری ہوئی ہے جو اُنہوں نے حماد بھائی کے لیے مانگی تھی کہ ’’ اللہ تعالیٰ حماد بھائی کو بھی تھوڑی سی حسِ مزاح دے دے ۔ ‘‘ لیکن اُنہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ چیز اُن کے بھائی کو اتنی مشکل اور اتنی قربانیوں کے بعد ملے گی ۔