مخلص دوست

 ایک صبح پانی میں رہنے والے چوہے نے اپنے بل سے سر نکالا ،جس کی موتیوں جیسی چمکدار آنکھیں ، سُرمئی موچھیں اور لمبی سیاہ دم تھی۔ جھیل میں ایک طرف بطخ کے چھوٹے چھوٹے بچے تیر رہے تھے جو دور سے پیلے رنگ کی چھوٹی سی چڑیا معلوم دے رہے تھے۔۔۔ اور ان کی ماں بالکل سفید تھی جس کی ٹانگیں سرخ تھیں،وہ اپنے بچوں کو سکھا رہی تھی کہ پانی میں سر کے بل کس طرح کھڑا ہوا جاتا ہے۔وہ خود ان کو سر کے بل کھڑے ہو کر دکھا رہی تھی اور بتا رہی تھی کہ تم اس وقت تک معاشرے میں اچھا مقام حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ پانی میں سر کے بل کھڑا ہونا نہ سیکھ لو۔لیکن وہ بچے اتنے چھوٹے تھے کہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ’’معاشرہ‘‘ ہوتا کیا ہے اور اس میں اچھا مقام حاصل کرنے یا نہ کر نے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ’’ کتنے نا فرمان بچے ہیں۔۔۔۔!‘‘پانی کا چوہا بولا؛’’ انہیں ڈوب ہی جانا چاہیئے۔۔۔!‘‘ ’’نہیں۔۔۔۔۔۔سیکھنے میں وقت تو لگتا ہے۔۔۔!‘‘بطخ بولی؛’’ ماں باپ کو صبر سے کام لینا پڑتا ہے۔‘‘ ’’آہ۔۔۔۔!مجھے ماں باپ کے جذبات کا کچھ علم نہیںہے،‘‘چوہا بولا؛’’کیونکہ میرے بچے نہیں ہیں،در حقیقت میں نے شادی ہی نہیں کی ۔۔۔۔۔! نہ ہی کرونگا۔میرے خیال میں ایک مخلص دوست دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہوتا ہے،یہ قدرت کا ایک نایاب تحفہ ہوتا ہے۔‘‘ ساتھ ہی درخت پر ایک چھوٹی چڑیا بیٹھی چوہے اور بطخ کی گفتگو سن رہی تھی،بولی؛ ’’مخلص اور اچھا دوست تو سبھی چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔مگر دوستی نبھانامشکل کام ہوتا ہے،بدلے میں کیا تم بھی اتنے ہی اچھے دوست ثابت ہو سکتے ہو۔۔۔؟‘‘ ’’یہ کیا احمقانہ سوال ہے۔۔۔؟‘‘ چوہا کچھ نا سمجھتے ہوئے بولا ’’ میں تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں۔۔۔!‘‘ چڑیا بولی ’’کیا وہ کہانی میرے بارے میں ہے۔۔۔؟‘‘چوہے نے پوچھا؛’’اگر وہ میرے بارے میں ہے تو میں ضرور سنوں گا،مجھے کہانیاں سننے کا بہت شوق ہے۔‘‘ ’’ یہ کہانی تمہاری بھی ہو سکتی ہے۔۔۔۔!‘‘یہ کہہ کر چڑیا اُڑی اور نزدیک کی ایک شاخ پر آ بیٹھی،پھر کہانی شروع کی؛ اس کہانی کا نام ہے ــ

’’مخلص دوست‘‘

۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جگہ ایک لڑکا رہتا تھا جس کا نام ہنسؔ تھا۔ ’’ کیا وہ بہت خاص لڑکا تھا۔۔۔؟‘‘ چوہے نے پوچھا ’’نہیں۔۔۔۔! ‘‘چڑیا بولی؛’’میرا نہیں خیال کہ وہ ایسا کچھ خاص لڑکا تھا۔۔۔۔۔۔سوائے اس کے دل کے۔۔۔۔اور مضحکہ خیز گول چہرے کے! وہ اپنے جھونپڑے میں اکیلا رہتا تھااور ہر روز اپنے باغیچے میں کام کرتا تھا۔اس سارے گاؤں میں اس کے باغیچے سے زیادہ اچھا باغ کوئی نہیں تھا۔دنیا میں جتنی قسم کے پھول ہیں وہ تمام اس کے باغیچے میں موجود تھے۔ایک پھول مرجھاتا تو دوسرااس کی جگہ کھل جاتا۔۔۔۔غرضیکہ ہر موسم کے پھل پھول اس کے باغیچے میں موجود تھے جہاں سے ہر وقت مسحور کن خوشبو آتی رہتی تھی۔ کیونکہ ہنس کا قد چھوٹا تھا اس لئے سب اس کو چھوٹا ہنس کہتے تھے۔یوں تو ہنس کے بہت سے دوست تھے لیکن سب سے زیادہ مخلص دوست ’’بڑا چکی والا‘‘ تھا،وہ لمبے قد کا تھا اور آٹے کی ایک چکی کا مالک تھا اس لئے بڑا چکی والا کہلاتا تھا اوربے حد امیر شخص تھا۔چکی والا ہنس کا اتنا مخلص دوست تھاکہ وہ جب بھی ہنس کے باغیچے کے پاس سے گزرتا تو جھک کر کچھ پھول ضرور توڑ لیتا تھا یا اگر پھلوں کا موسم ہوتا توآلو بخارے اور چیری سے اپنی جیبیں بھر لیتا ۔ ’’سچے دوستوں کی ہر چیز سانجھی ہوتی ہے۔۔۔!‘‘ چکی والا اکثر کہا کرتا اور چھوٹا ہنس مسکرا کر سر ہلا دیتا،وہ فخر محسوس کرتا کہ اس کے دوست کے خیالات کتنے آعلیٰ ہیں۔ اس کے پڑوسی اکثر حیرت سے سوچتے کہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امیرچکی والا نے کبھی بدلے میں چھوٹے ہنس کو کچھ نہیں دیا حالانکہ ا س کی مِل کے گودام میں سینکڑوں آٹے کے تھیلے تھے،چھہ دودھ دینے والی گائیں تھیں اور اون والی بھیڑوں کا بہت بڑا گلہ تھا۔لیکن ہنس نے کبھی بھی ان چیزوں کو اہمیت نہیں دی تھی۔اس کو سب سے زیادہ خوشی ان حیرت انگیز باتوں کو سن کر ہوتی تھی جو چکی والا سچی اور بے غرض دوستی کے بارے میں کہا کرتا تھا۔ بہا ر میں ،گرمی میں اور خزاں میں ہنس بہت خوش اور مطمئن رہتا ۔۔۔۔۔۔لیکن جب سردی آتی تو اس کے باغ میں کوئی پھل یا پھول نہیں ہوتا تھا جسے وہ بازار میں بیچ کر اپنے کھانے اور سردی سے بچنے کا بندوبست کر سکتا،وہ سردی اور بھوک سے بے حال رہتا تھا۔اس کے پاس کچھ سوکھی ناشپاتی اور اخروٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، اکثر رات کو بھوکا ہی سوتا تھا۔ وہ سردی میںبہت زیادہ تنہا ہوجاتا تھا کیونکہ تب چکی والا بھی اس سے ملنے نہ آتا۔ ’’جب تک سردی اور برفباری ہے ہنس کے پاس جانا اچھا نہیں۔۔!‘‘چکی والا اپنی بیوی سے کہتا؛’’ کیونکہ جب انسان مصیبت میں ہو تو اسے اکیلا چھوڑ دینا چاہیئے تاکہ مہمانوں کی آمد سے اس کی پریشانی میں اضافہ نہ ہو۔ لہٰذا مجھے بھی بہار کا انتظار کرنا چاہیئے۔۔۔۔۔تب میں اس سے ملنے جاؤنگا تو وہ مجھے ٹوکری بھر کر پھل پھول دینے کے قابل بھی ہوگا۔۔اس طرح اسے خوشی ہوگی۔‘‘ ’’اوہ تم دوسروں کا کتنا خیال رکھتے ہو،‘‘اس کی بیوی نے کہا جو آتش دان کے پاس آرام کرسی پر بیٹھی تھی؛’’حقیقتاً بہت خیال رکھتے ہو، دوستی کے بارے میں تمہارے خیالات کتنے آعلیٰ ہیں،مجھے یقین ہے کہ گاؤں کے پادری بھی اتنے خوبصورت اور آعلیٰ خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے حالانکہ وہ تین منزلہ مکان میں رہتے ہیں اور سونے کی انگوٹھی بھی پہنتے ہیں اپنی چھنگلی میں۔‘‘ ’’ لیکن کیا ہم چھوٹے ہنس کو یہاں ا پنے گھر میں بلا کر نہیں رکھ سکتے۔۔۔؟‘‘چکی والے کا سب سے چھوٹا بیٹا بولا؛’’ اگر چھوٹا ہنس مصیبت میں ہے تو میں اسے اپنا دلیہ دے دونگا اور اسے اپنے خرگوش بھی دکھاؤنگا۔‘‘ ’’ تم بہت ہی احمق لڑکے ہو۔۔۔!‘‘ چکی والا چلایا؛’’مجھے نہیں معلوم کہ تمہیں سکول بھیجنے کا آخر فائدہ کیا ہے۔۔۔؟تم مجھے کچھ سیکھتے دکھائی نہیں دیتے۔اگر چھوٹا ہنس ہمارے گھر آگیا تو وہ ہمارے بہترین کھانے اور مشروب دیکھ کر جلے گا،اور حسد بہت ہی خطرناک چیز ہوتی ہے جو کسی کو بھی خراب کر سکتی ہے ، میں چھوٹے ہنس کو خراب ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا۔میں اس کا سب سے اچھا دوست ہوں اور ہمیشہ اس پر نظر رکھتا ہوں کہ کہیں وہ کسی بری عادت میں نہ پڑ جائے۔اس کے علاوہ اگر ہنس یہاں آگیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ مجھ سے کچھ آٹا ہی ادھار مانگ لے جو میں اسے نہیں دے سکتا ۔۔۔۔ دوستی الگ چیز ہے اورآٹا ایک الگ چیز ہے اور میں ان دونوں کو اکھٹا کر کے پر یشان نہیں ہو نا چاہتا، کیونکہ یہ دونوں مختلف الفاظ ہیں ۔۔۔ان کی ہجے تک مختلف ہے! ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ کتنے مختلف ہیں۔۔۔۔!‘‘ ’’اوہ تم اتنا اچھا کیسے بول لیتے ہو۔۔۔۔؟‘‘چکی والے کی بیوی بولی جو ایک بڑے پیالے میں گرم گرم سوپ انڈیل رہی تھی؛’’ مجھ پر تو ان باتوں کا اتناگہرا اثر ہوا ہے کہ جیسے میں کسی پادری کی تقریر سن رہی ہوں۔‘‘ ’’بہت سے لوگ اچھے کام کر لیتے ہیں۔۔۔‘‘چکی والا بولا؛’’مگر چند ہی لوگ ایسے ہیں جو اچھا بول سکتے ہیں۔۔۔۔! اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اچھا بولنا کتنا مشکل کام ہے۔۔اور حقیقتاً ایک بہترین کام بھی! ‘‘پھر چکی والے نے حقارت سے اپنے چھوٹے بیٹے کو دیکھا جو اپنی بات پر شرمندگی محسوس کر رہا تھا،اس نے سر جھکا رکھا تھا،گو کہ وہ شرمندگی سے سرخ ہو رہا تھاتاہم وہ اتنا چھوٹا تھا کہ معذرت نہیں کر سکتا تھا۔ ’’ کیا یہاں کہانی ختم ہوگئی۔۔۔؟‘‘پانی کے چوہے نے پوچھا ’’بالکل نہیں۔۔۔۔۔یہ تو شروعات ہیں۔‘‘ چڑیا بولی ’’اچھا ۔۔۔۔تو پھر آگے بولو۔‘‘چوہا بولا؛’’ اس کہانی میں مجھے چکی والے کا کردار بہت پسند آیا کیونکہ اس کے اور میرے خیالات بہت ملتے ہیں۔‘‘ پھر جیسے جیسے سردی ختم ہونے لگی اور پیلے پیلے بسنتی پھو ل کھلنے لگے توچکی والے نے اپنی بیوی سے کہا؛ ’’اب مجھے چھوٹے ہنس سے ملنے کے لئے جانا چاہیئے۔۔۔۔!‘‘ ’’اوہ تمہارا دل کتنا اچھا ہے۔۔۔۔! تمہیں ہمیشہ دوسروں کا خیال رہتا ہے ،اور ہاں جاتے ہوئے پھولوں کے لئے بڑ ی والی ٹوکری لے جانا مت بھولنا۔‘‘ چکی والے نے اپنی آٹے کی چکی بند کی اور ہاتھ میں ایک بڑی سی ٹوکری لئے پہاڑ ی سے نیچے ہنس کے گھر جانے و الے راستے پر چل پڑا۔ ’’صبح بخیر چھوٹے ہنس۔۔۔۔!‘‘چکی والا خوش دلی سے بولا ’’ اوہ صبح بخیر۔۔۔۔!‘‘ ہنس خوش ہوتے ہوئے بولاجو بیلچے سے زمین کھودنے میں مصروف تھا۔ ’’ اور سناؤ تمہاری سردی کیسی گزری۔۔۔۔؟‘‘چکی والے نے پوچھا ’’ بس گزری ہی گئی۔۔!‘‘ ہنس بولا؛’’ تمہاری بہت مہربانی کہ تم نے میرا حال پوچھا۔اس دفعہ سردی کچھ زیادہ ہی سخت تھی میں تو ڈر ہی رہا تھا۔۔۔۔۔مگر شکر ہے کہ اب بہار آچکی ہے اور میرے تمام پھول پودے اچھے طریقے سے پھل پھول دے رہے ہیں ۔‘‘ ’’ ہم سردی میں اکثر تمہاری باتیں کرتے تھے اور ہم حیران تھے کہ تم کیسے گزارہ کرتے ہو۔۔۔۔؟‘‘چکی والا بولا ’’یہ تو آپ کی مہربانی ہے۔۔۔!‘‘ ہنس بولا؛’’میں تو خوفزدہ تھا کہ کہیں آپ مجھے بھول تو نہیں گئے۔۔۔!‘‘ ’’مجھے تم پرحیرت ہے ہنسؔ۔۔۔!بھلا دوست بھی کوئی بھلانے والی چیز ہے۔۔۔؟‘‘چکی والا بولا؛’’ ویسے تمہارے پیلے پیلے بسنتی پھول کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔۔۔!‘‘ ’’ہاں واقعی یہ بہت پیارے ہیں۔۔۔۔اور میری خوش قسمتی ہے کہ یہ اتنی زیادہ تعداد میں کھلے ہیں اب میں انہیں مارکیٹ میں بیچنے کے لئے جا رہا ہوں،ان کو بیچ کر میں اپنی مٹی اٹھانے والی ریڑھی واپس لونگا جو میں نے گِروی رکھوائی تھی۔‘‘ہنس خوشی سے بولا ’’کتنی احمقانہ بات ہے۔۔۔۔!‘‘ چکی والا بولا ’’ ہاں ہے تو۔۔۔۔۔‘‘ ہنس نے کہا؛’’ مگر یہ حقیقت ہے!تمہیں تو معلوم ہے میرے لئے سردیوں کا موسم کتنا برا ہوتا ہے،مجھے پیسوں کی سخت ضرورت تھی ۔میرے پاس تو ڈبل روٹی تک خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھے،لہٰذاپہلے میں نے اپنے چرچ والے کوٹ کے چاندی کے بٹن بیچے،پھر چاندی کی زنجیر بیچی،پھر میں نے اپنا پینے والا بڑا پائپ بیچا،آخر کار ریڑھی بھی بک گئی۔۔۔۔۔۔۔! مگر اب میں وہ سب چیزیںواپس خریدنے جا رہا ہوں۔‘‘ ’’ہنس۔۔۔!‘‘ چکی والا بولا،’’میں تمہیں اپنی ریڑھی دے دونگا،گو کہ اس کی ایک سائڈ بالکل ٹوٹ چکی ہے،اس کے پہیوں میں بھی کچھ خرابی ہے۔۔۔۔۔پھر بھی میں وہ تمہیں دے دوں گا،میں جانتا ہوں کہ میں بہت سخی ہوںاور اسی دریا دلی کی وجہ سے لوگ مجھے احمق کہتے ہیں ، لیکن میں اور لوگوں کی طرح نہیں ہوں۔۔!میرے خیال میں سخاوت ہی دوستی کا نچوڑ ہے،میرا کیا ہے میں نئی ریڑھی خرید لونگا !لہٰذا اب تم فکر نہیں کرنا ۔‘‘ ہنس کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا،وہ بولا؛’’واقعی یہ تو تمہارا بہت بڑا احسان ہوگا مجھ پر۔۔۔۔! میںآسانی سے اس کی مرمت کرلوں گا میرے پاس لکڑی کے کچھ تختے پڑے ہیں۔‘‘ ’’ کیا۔۔۔۔۔۔لکڑی کے تختے ۔۔۔؟‘‘ چکی والا حیرت سے بولا؛’’مجھے بھی اپنے باڑے کی چھت مرمت کرنے کے لئے کچھ تختے چاہیئں۔چھت میں بہت بڑا سوراخ ہوگیا ہے ،اگر اس کی مرمت نہ ہوئی تو میرا سارا اناج بھیگ جائے گا۔۔۔! یہ تو بہت اچھا ہوا کہ تم نے تختوں کا ذکر کردیا۔یہ کتنی صحیح بات ہے کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی اس کا بد لہ ضرور ملتا ہے۔۔۔۔میں نے تمہیں ریڑھی دی اور اب تم مجھے اپنے تختے دینے جا رہے ہو۔گو کہ میری ریڑھی ان تختوں سے زیادہ قیمتی ہے لیکن سچی دوستی میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔اب تم مجھے فوراً وہ تختے دے دو تاکہ میں اپنا کام کرلوں۔‘‘ ’’ہاں کیوں نہیں۔۔۔!‘‘ ہنس بولااور بھاگا ہوا اندر اسٹور میں گیا اور لکڑیوں کا ایک گٹھہ گھسیٹتا ہوا لے آیا۔ ’’ اوہ یہ تو کوئی زیادہ تختے نہیں ہیں۔۔۔؟‘‘ چکی والا تختوں کو دیکھتے ہوئے بولا؛’’ میرے خیال میں یہ تو میری چھت کی مرمت میں ہی لگ جائیں گے،تمہاری ریڑھی کے لئے تو کچھ بچے گا ہی نہیں،لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے۔اب جبکہ میں نے تمہیں اپنی ریڑھی دی ہے تو بدلے میں تم بھی مجھے کچھ دوگے ہی نا۔۔۔یہ ٹوکری پھولوں سے بھر دو۔۔۔۔!‘‘چکی والا ہنس کو ایک بڑی ٹوکری پکڑاتے ہوئے بولا ’’ اس کو بھر دوں۔۔۔۔؟‘‘ ہنس غمزدہ آواز میں بولا،کیونکہ وہ ٹوکری بھرنے کے بعد اس کے پاس اتنے پھول نہ بچتے جن کو بیچ کر وہ اپنی گِروی چیزیں چھڑا سکتا ’’ ہاں بھر دو۔۔۔۔! ‘‘ چکی والا بولا؛’’لیکن تمہیں یہ زیب نہیں دیتاکہ ان چند پھولوں کے لئے تم اس طرح کا سوال کروجبکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی بھی دے چکا ہوں۔مجھے افسوس ہے،میں نے تو سوچا تھا کہ سچی دوستی میں۔۔۔۔۔سچی دوستی میں اس قسم کی خود غرضانہ باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔۔۔!‘‘ ’’اوہ میرے پیارے دوست۔۔۔۔۔میرے اچھے دوست۔۔۔!‘‘ہنس جذباتی ہوگیا؛’’ تمہارے لئے میرے باغ کے تمام پھول حاضر ہیں۔تمہارے اتنے اچھے خیالات میرے چاندی کے بٹنوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔‘‘ وہ بھاگا ہوا باغ میں گیااور اپنے تمام خوبصورت پیلے بسنتی پھول توڑ توڑ کر ٹوکری بھر دی۔ ’’اچھا خدا حافظ چھوٹے ہنس۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کرچکی والے نے ایک ہاتھ میں لکڑی کے تختوں کا گٹھا اور دوسرے ہاتھ میں پھولوں کی ٹوکری اٹھا کر اوپر پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ ’’خدا حافظ دوست۔۔۔!‘‘ ہنس نے بھی کہا اور خوشی خوشی پھر سے اپنی زمین کی کھدائی میں مصروف ہوگیا۔وہ چکی والے کی دی ہوئی ریڑھی کے بارے میں سوچ سوچ کر خوش ہو رہا تھا۔ اگلے دن جب ہنس اپنے باغیچے کی دیوار پر بیلیں چڑھا رہا تھا تو اسے چکی والے کی آواز آئی جو باہر سڑک پر کھڑا ہنس کو پکار رہا تھا
ہنس نے باغیچے کی دیوار سے باہر جھانک کر دیکھا۔باہر چکی والا ا یک بڑا آٹے کا تھیلا اپنی کمر پر لادے کھڑا تھا،بولا؛’ پیارے چھوٹے ہنس۔۔۔کیا تم میری خاطر یہ آٹے کا تھیلا مارکیٹ لے جا ؤگے۔۔۔۔؟‘‘’’اوہ مجھے افسوس ہے۔۔۔۔۔دراصل آج میں بہت مصروف ہوں۔آج مجھے تمام بیلیں دیوار پر چڑھانی ہیں اورتمام پھولوں کو پانی دینا ہے ،پھر لان کی گھاس کاٹنی ہے۔‘‘’’ اچھا واقعی۔۔۔۔؟‘‘چکی والا مصنوعی حیرت سے بولا؛’’ میرا تو خیال تھا کہ اب جبکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی دے رہا ہوں تو تم مجھے انکار نہیں کروگے،یہ بہت غیر دوستانہ عمل ہے۔‘’’ اوہ ۔۔۔۔ایسا مت کہو!‘‘ ہنس شرمندہ ہوکر بولا؛’’میں دوستی کو تمام دنیا پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘وہ دوڑا ہوا اندر گیااور اپنی ٹوپی اٹھا لایا، پھر جلدی سے آٹے کا تھیلا کمر پر لاد کرمارکیٹ کی طرف چل پڑا۔اس دن بہت گرمی تھی اور سڑک پر دھول بھی تھی،ہنس ابھی چھ میل ہی چلا تھا کہ تھک گیا،وہ آرام کرنا چاہتا تھا پھر بھی چلتا رہا اور آخر کا ر مارکیٹ پہنچ گیا۔وہاں کچھ دیر ٹہرا اور بہت اچھی قیمت پر آٹے کا تھیلا فروخت کیا اور پھر فوراً ہی واپس لوٹ آیاکیونکہ اسے ڈر تھا کہ اگر راستے میں دیر ہوگئی تو چور ڈاکوؤں سے واسطہ نہ پڑ جائے۔’’اوہ بہت تھکا دینے والا دن تھا۔۔۔!‘‘ہنس نے رات کو اپنے بستر پر جاتے ہوئے سوچا،’’لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں نیچکی والے کو انکار نہیں کیا کیونکہ وہ میرا بہترین دوست ہے،پھر اپنی ریڑھی بھی تو مجھے دے رہا ہے۔‘‘اگلے دن صبح صبح ہی چکی والا اپنے آٹے کے پیسے لینے پہنچ گیا، ہنس ابھی تک اپنے بستر پر تھا،اس کو دیکھ کر چکی والا بولا؛ ’’تم بہت ہی سُست ہو۔۔۔۔۔۔!اب جبکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی دے رہا ہوں تو تمہیں زیادہ محنت سے کام کرنا چاہیئے،بے کاری بہت بڑا گناہ ہے اس لئے میں نہیں چاہتا کہ میرا دوست بیکار بیٹھے۔ مجھے یقین ہے کہ تمہیں میری بات بُری نہیں لگی ہوگی کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی دوستی کا کیا فائدہ جس میں دوست کو صحیح بات نہ بتائی جائے چاہے وہ کڑوی ہی کیوں نہ لگے۔‘‘
’’مجھے معاف کردو دوست۔۔۔۔!‘‘ ہنس شرمندہ ہوتے ہوئے بولا،’’مگر میں اتنا تھک گیا تھا کہ دل چاہا تھوڑی دیر اور لیٹا رہوںبستر میں اور پرندوں کو گاتے ہوئے سنتا رہوں۔۔۔۔۔تمہیں معلوم ہے کہ پرندوں کا گانا سننے کے بعد میں زیادہ اچھے طریقے سے کام کرتا ہوں۔‘‘
’’چلو اچھا ہے۔۔۔۔مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی۔اب تم جلدی سے کپڑے بدل کر اوپر میری مِل میں آجاؤ کیونکہ تمہیں باڑ ے کی چھت بھی مرمت کرنی ہے۔‘‘ مِلر ہنسؔ کی کمر تھپتھپا تے ہوئے بولا
بے چارہ ہنس تو اپنے باغیچے میں جاکر کام کرنے کے لئے بے چین تھا کیونکہ اس نے دو دن سے پودوں کو پانی بھی نہیں دیا تھا مگر وہ چلی والے کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔لہٰذا اس نے ڈرتے ڈرتے کہا؛
’’اگر میں یہ کہوں کہ آج میں بہت زیادہ مصروف ہوں ۔۔۔۔۔تو تم میری دوستی پر شک تو نہیں کروگے۔۔۔؟‘‘
’’اب جبکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی بھی دے رہا ہوں تو تمہیں اس طرح کہنا تو نہیں چاہیئے تھا،لیکن پھر بھی اگر تم انکار کرتے ہو تو میں خود ہی یہ کام کر لوں گا۔‘‘چکی والا کچھ خفا ہوتے ہوئے بولا
’’اوہو میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔!‘‘ ہنس چلایا اورچھلانگ لگا کر بستر سے نکلا،کپڑے بدل کر باڑے کی دوڑ پڑا۔
چھوٹا ہنس وہاں تمام دن کام کرتا رہا اور جب سورج غروب ہوگیاتو چکی والا دیکھنے آیاکہ اس نے کیا کام کیا ہے۔
’’اوہ۔۔۔کیا تم چھت مرمت کر چکے۔۔۔؟‘‘چکی والا نے خوشی سے پوچھا
’’ہاں۔۔۔۔بالکل مرمت ہوگئی۔‘‘ہنس سیڑھی سے نیچے اترتا ہوا بولا
’’آہ کام اچھاوہی ہوتا ہے جو انسان دوسروں کے لئے کرے۔۔۔۔!‘‘ چکی والا بہت خوش تھا
’’تمہارے منہ سے اتنی اچھی باتیں سننا میرے لئے فخر کا باعث ہے۔‘‘ہنس بولا،’’میرے ذہن میں ایسی باتیں کبھی نہیں آتیں جیسی تم کر لیتے ہو۔‘‘
’’اوہ تم بھی کر سکتے ہو۔۔۔۔۔لیکن اس کے لئے تمہیں اور زیادہ تکلیفیں سہنی پڑیں گی ،فی الحال تو تم اچھے دوست بننے کی کوشش کرو۔۔۔۔ اچھی باتیں خود بخود آجائیں گی۔‘‘
’’کیا واقعی۔۔۔۔؟‘‘ہنس خوشی سے بولا
’’ہاں ہاں بالکل۔۔۔!‘‘چکی والا بولا؛’’مگر فی الحال تم گھر جا کر آرام کروکیونکہ تم بہت تھک گئے ہوں گے،کل صبح تم نے میری بھیڑوں کو چرانے کے لئے پہاڑ پر بھی لے جانا ہے۔‘‘
اگلی صبح چکی والا اپنی بھیڑیں لے کر ہنس کے جھونپڑے میں پہنچ گیا۔ہنس بے چارہ دوستی کے مارے انکار بھی نہیں کر سکااوراس کی بھیڑیں لے کر پہاڑ پر چلا گیا۔
سارا دن بھیڑیں چرا کر جب شام کو گھر لوٹا تو وہ اتنا تھک چکا تھا کہ اپنی آرام کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سو گیااور اگلی صبح کہیں دن چڑھے اس کی آنکھ کھلی۔
غرضیکہ ہنس بے چارہ کبھی زیادہ عرصے تک اپنے باغیچہ کی دیکھ بھال نہ کر سکا کیونکہ چکی والا اسے دوستی کا طعنہ دے دے کر اپنے ہی کام سے لگائے رکھتا ۔ہنس بہت پریشان ہوجاتا۔۔۔۔۔۔اسے یہ بھی فکر تھی کہ اس کے پھول کیا سوچتے ہوں گے کہ میں انہیں بھول ہی گیا۔لیکن یہ سوچ کر وہ خود کو تسلی دے لیتا کہ چکی والا اس کا بہترین دوست ہے اور پھر وہ اسے اپنی ریڑھی بھی تو دے رہا ہے اس کی یہ مہربانی کیا کم ہے۔ ٍٍٍٍٍٍٍٍ
اس طرح چھوٹا ہنس چکی والے کے کام کرتا رہا اور چکی والا اس کو دوستی کے بارے میں اچھی اچھی باتیں بتاتا رہتا جنہیں ہنس اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیتا اور رات کو فرصت کے وقت بیٹھ کر پڑھتا۔
اور پھر ایک سرد رات۔۔۔۔۔جب چھوٹا ہنس اپنے آتشدان کے قریب بیٹھا اونگھ رہا تھا تو بہت زور سے دروازہ بجا۔۔۔!وہ بہت خوفناک رات تھی ،طوفانی ہوائیں چنگھاڑ رہی تھیں۔۔۔۔!پہلے تو ہنس سمجھا کہ ہوا سے دروازہ بج رہا ہے،لیکن دروازہ دوبارہ بجا۔۔۔۔۔ پہلے سے بھی زیادہ زور سے۔۔!
’’ضرور کوئی مصیبت ذدہ مسافر ہوگا۔۔۔۔!‘‘ ہنس نے سوچا اور دروازے کی طرف دوڑا۔لیکن دروازے پر چکی والا کھڑا تھا ۔۔۔۔۔ایک ہاتھ میں لالٹین تھی اور دوسرے میںچھڑی۔
’’ پیارے چھوٹے ہنس! میں مصیبت میں ہوں۔۔۔!‘‘ چکی والا زور سے چلایا؛’’ میرا چھوٹا بیٹا سیڑھیوں سے گِر کر زخمی ہوگیا ہے اور میں ڈاکٹر کو لینے جارہا تھا۔۔۔۔۔ لیکن وہ بہت دور رہتا ہے اور آج کی رات بہت خوفناک ہے۔۔۔۔! تو میں نے سوچا کہ اگر میری جگہ تم وہاں چلے جاؤ تو بہتر ہے،اب جبکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی بھی دے رہا ہوں تو تمہیں بھی تو بدلے میں میرے لئے کچھ کرنا چاہیئے۔۔۔!‘‘
’’یقیناً۔۔۔۔۔ یہ تو میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ تم خود چل کر میرے پاس آئے ہو۔میں ابھی فوراً جاتا ہوں لیکن مجھے تمہاری لالٹین کی ضرورت پڑے گی کیونکہ رات بہت اندھیری ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کسی گڑھے میں نہ گِر جاؤں۔‘‘ہنس فکر مندی سے بولا
’’ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں اپنی لالٹین نہیں دے سکتا کیونکہ یہ بالکل نئی ہے،اگر یہ خراب ہو گئی تو میرا بڑا نقصان ہو جائے گا۔‘‘
’’چلو کوئی بات نہیں۔۔۔۔میں اس کے بغیر ہی چلا جاؤں گا۔‘‘ہنس نے اپنا برساتی کوٹ پہنا،بڑا سا ہیٹ اٹھایا اور گلے میں مفلر باندھ کر چل پڑا۔
باہر بہت سخت طوفان تھا،رات اتنی سیاہ تھی کہ ہنس کو راستہ بمشکل دکھائی دے رہا تھا،اور ہوا اتنی شدید تھی کہ چلنا بھی دشوار ہو رہا تھا۔تاہم ہنس نے بہت ہمت سے کام لیا اور چلتا رہا چلتا رہا۔۔۔۔۔۔۔بالآخر تین گھنٹے میںکہیں جا کر ڈاکٹر کے گھر پہنچا اور اس کے دروازے پر دستک دی۔
’’کون ہے۔۔۔۔۔؟‘‘ ڈاکٹر نے اپنے بیڈ روم کی کھڑکی سے سر نکال کر پو چھا
’’میں چھوٹا ہنس ڈاکٹر۔۔۔۔!‘‘ہنس نے جواب دیا
’’کیا بات ہے ہنس۔۔۔۔؟‘‘ڈاکٹر نے پھر پوچھا
’’چلی والے کا بیٹا سیڑھی سے گِر کر زخمی ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔اس نے تمہیں بلایا ہے۔‘‘
’’ بہت اچھا۔۔۔۔میں آتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنا گھوڑا نکالا،لالٹین اٹھائی اور باہر آگیا۔وہ گھوڑے پر بیٹھ کرچکی والے کے گھر کی طرف چل پڑا۔ہنس بھی گرتا پڑتا اس کے پیچھے ہولیا۔۔۔۔!
طوفان شدید سے شدید تر ہوتا گیااور موسلادھار بارش بھی شروع ہوگئی،اب تو ہنس کو کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھاکہ وہ کہاں جا رہا ہے اور ڈاکٹر کا گھوڑا کدھر کو گیا۔آخر کار ہنس راستہ بھٹک گیااور کہیں کا کہیں نکل گیا۔۔۔۔! وہ بہت خطرناک جگہ تھی،ہر طرف گڑھے اور گہری کھائیاں تھیں۔۔۔۔۔اور ایسی ہی ایک کھائی میں چھوٹا ہنس بھی گر گیا اور ڈوب کر مر گیا۔اگلے دن چرواہوں کو ایک کھائی میں تیرتی ہوئی اس کی لاش ملی جو انہوں نے اس کے جھونپڑے میں پہنچا دی۔
ہر کوئی اس کے جنازے میں شریک تھاکیونکہ چھوٹا ہنس ہر دل عزیز تھا،سبھی اس سے پیار کرتے تھے، سب سے آگے آگے چکی والا تھا،
’’کیونکہ میں اس کا سب سے اچھا دوست تھا اس لئے مجھے سب سے آگے جگہ ملنی چاہیئے۔۔۔۔!‘‘چکی ولا بولا،اس نے سیاہ چُغہ پہن رکھا تھااور بڑے سے رومال سے اپنی آنکھیں صاف کر رہا تھا۔
’’چھوٹے ہنس کی موت ہم سب کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔۔۔!‘‘ گاؤں کا لوہار بولا
اب سب لوگ جنازے سے فارغ ہوکر ایک ہوٹل میں بیٹھے میٹھا کیک کھا رہے تھے اور نمکین چائے پی رہے تھے
’’سب سے بڑا نقصان میرے لئے ہے۔۔۔۔!‘‘ چکی ولا بولا؛’’کیونکہ میں اس کواپنی ریڑھی دے رہا تھا،اب مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں ریڑھی کا کیا کروں گا کیونکہ میں اس کو اپنے گھر میں بھی نہیں رکھ سکتا اور وہ اتنی بری حالت میں ہے کہ اس کو بیچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔!آئندہ میں اپنی کوئی چیز کسی کو نہیں دوںگا،سخی ہونابھی ایک مصیبت ہے۔‘‘
’’اچھا ،کہانی ختم۔۔۔؟‘‘ پانی والا چوہا بولا
’’ہاں،یہاں کہانی ختم ہوتی ہے۔۔۔۔!‘‘ چڑیا بولی
’’اور چکی والے کا کیا بنا۔۔۔۔؟‘‘ چوہے نے پوچھا
’’مجھے نہیں معلوم۔۔!‘‘ چڑیا بولی؛’’نہ ہی مجھے اس کی پرواہ ہے۔‘‘
’’کیوں۔۔۔۔۔ چکی والے کے لئے تمہارے دل میں کوئی ہمدردی نہیں۔۔۔۔۔؟‘‘ چوہا بولا
’’میرا خیال ہے کہ تم نے اس کہانی کے سبق پر دھیان نہیں دیا۔۔۔؟‘‘ چڑیا بولی
’’کیا اس کہانی میں کوئی سبق بھی تھا۔۔۔۔؟‘‘ چوہا حیرانی سے بولا
’’ہاں اور کیا۔۔۔۔۔!‘‘ چڑیا نے جواب دیا
’’ اوہ۔۔۔۔۔اگر تم مجھے پہلے بتا دیتیں کہ اس کہانی میں کوئی سبق بھی ہے تو میں یہ کہانی بالکل نہیں سنتا۔۔۔۔۔بلکہ ’’پوہ‘‘کہہ دیتا۔چلو اب کہے دیتا ہوں’’پوــہ‘‘۔۔۔۔!‘‘چوہا یہ کہہ کراپنی لمبی دم سمیٹ کر بل میں گھس گیا،اور چڑیا کو افسوس ہو رہا تھا کہ ایک سبق آموز کہانی سنا کر اس نے چوہے ناراض کر دیا۔

ترجمہ: آسکر وائلڈ کی کہانی ’’ڈیوٹڈ فرینڈ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.