۔ایکدفعہکاذکرہےکہایکجگہایکلڑکارہتاتھاجسکانامہنسؔتھا۔ ’’ کیاوہبہتخاصلڑکاتھا۔۔۔؟‘‘ چوہےنےپوچھا ’’نہیں۔۔۔۔! ‘‘چڑیابولی؛’’میرانہیںخیالکہوہایساکچھخاصلڑکاتھا۔۔۔۔۔۔سوائےاسکےدلکے۔۔۔۔اورمضحکہخیزگولچہرےکے! وہاپنےجھونپڑےمیںاکیلارہتاتھااورہرروزاپنےباغیچےمیںکامکرتاتھا۔اسسارےگاؤںمیںاسکےباغیچےسےزیادہاچھاباغکوئینہیںتھا۔دنیامیںجتنیقسمکےپھولہیںوہتماماسکےباغیچےمیںموجودتھے۔ایکپھولمرجھاتاتودوسرااسکیجگہکھلجاتا۔۔۔۔غرضیکہہرموسمکےپھلپھولاسکےباغیچےمیںموجودتھےجہاںسےہروقتمسحورکنخوشبوآتیرہتیتھی۔کیونکہہنسکاقدچھوٹاتھااسلئےسباسکوچھوٹاہنسکہتےتھے۔یوںتوہنسکےبہتسےدوستتھےلیکنسبسےزیادہمخلصدوست ’’بڑاچکیوالا‘‘ تھا،وہلمبےقدکاتھااورآٹےکیایکچکیکامالکتھااسلئےبڑاچکیوالاکہلاتاتھااوربےحدامیرشخصتھا۔چکیوالاہنسکااتنامخلصدوستتھاکہوہجببھیہنسکےباغیچےکےپاسسےگزرتاتوجھککرکچھپھولضرورتوڑلیتاتھایااگرپھلوںکاموسمہوتاتوآلوبخارےاورچیریسےاپنیجیبیںبھرلیتا۔ ’’سچےدوستوںکیہرچیزسانجھیہوتیہے۔۔۔!‘‘ چکیوالااکثرکہاکرتااورچھوٹاہنسمسکراکرسرہلادیتا،وہفخرمحسوسکرتاکہاسکےدوستکےخیالاتکتنےآعلیٰہیں۔اسکےپڑوسیاکثرحیرتسےسوچتےکہیہکتنیعجیبباتہےکہامیرچکیوالانےکبھیبدلےمیںچھوٹےہنسکوکچھنہیںدیاحالانکہاسکیمِلکےگوداممیںسینکڑوںآٹےکےتھیلےتھے،چھہدودھدینےوالیگائیںتھیںاوراونوالیبھیڑوںکابہتبڑاگلہتھا۔لیکنہنسنےکبھیبھیانچیزوںکواہمیتنہیںدیتھی۔اسکوسبسےزیادہخوشیانحیرتانگیزباتوںکوسنکرہوتیتھیجوچکیوالاسچیاوربےغرضدوستیکےبارےمیںکہاکرتاتھا۔بہارمیں،گرمیمیںاورخزاںمیںہنسبہتخوشاورمطمئنرہتا۔۔۔۔۔۔لیکنجبسردیآتیتواسکےباغمیںکوئیپھلیاپھولنہیںہوتاتھاجسےوہبازارمیںبیچکراپنےکھانےاورسردیسےبچنےکابندوبستکرسکتا،وہسردیاوربھوکسےبےحالرہتاتھا۔اسکےپاسکچھسوکھیناشپاتیاوراخروٹکےسواکچھبھینہیںہوتاتھا،اکثرراتکوبھوکاہیسوتاتھا۔وہسردیمیںبہتزیادہتنہاہوجاتاتھاکیونکہتبچکیوالابھیاسسےملنےنہآتا۔ ’’جبتکسردیاوربرفباریہےہنسکےپاسجانااچھانہیں۔۔!‘‘چکیوالااپنیبیویسےکہتا؛’’ کیونکہجبانسانمصیبتمیںہوتواسےاکیلاچھوڑدیناچاہیئےتاکہمہمانوںکیآمدسےاسکیپریشانیمیںاضافہنہہو۔لہٰذامجھےبھیبہارکاانتظارکرناچاہیئے۔۔۔۔۔تبمیںاسسےملنےجاؤنگاتووہمجھےٹوکریبھرکرپھلپھولدینےکےقابلبھیہوگا۔۔اسطرحاسےخوشیہوگی۔‘‘ ’’اوہتمدوسروںکاکتناخیالرکھتےہو،‘‘اسکیبیوینےکہاجوآتشدانکےپاسآرامکرسیپربیٹھیتھی؛’’حقیقتاًبہتخیالرکھتےہو،دوستیکےبارےمیںتمہارےخیالاتکتنےآعلیٰہیں،مجھےیقینہےکہگاؤںکےپادریبھیاتنےخوبصورتاورآعلیٰخیالاتکااظہارنہیںکرسکتےحالانکہوہتینمنزلہمکانمیںرہتےہیںاورسونےکیانگوٹھیبھیپہنتےہیںاپنیچھنگلیمیں۔‘‘ ’’ لیکنکیاہمچھوٹےہنسکویہاںاپنےگھرمیںبلاکرنہیںرکھسکتے۔۔۔؟‘‘چکیوالےکاسبسےچھوٹابیٹابولا؛’’ اگرچھوٹاہنسمصیبتمیںہےتومیںاسےاپنادلیہدےدونگااوراسےاپنےخرگوشبھیدکھاؤنگا۔‘‘ ’’ تمبہتہیاحمقلڑکےہو۔۔۔!‘‘ چکیوالاچلایا؛’’مجھےنہیںمعلومکہتمہیںسکولبھیجنےکاآخرفائدہکیاہے۔۔۔؟تممجھےکچھسیکھتےدکھائینہیںدیتے۔اگرچھوٹاہنسہمارےگھرآگیاتووہہمارےبہترینکھانےاورمشروبدیکھکرجلےگا،اورحسدبہتہیخطرناکچیزہوتیہےجوکسیکوبھیخرابکرسکتیہے،میںچھوٹےہنسکوخرابہونےکیاجازتنہیںدےسکتا۔میںاسکاسبسےاچھادوستہوںاورہمیشہاسپرنظررکھتاہوںکہکہیںوہکسیبریعادتمیںنہپڑجائے۔اسکےعلاوہاگرہنسیہاںآگیاتوہوسکتاہےکہوہمجھسےکچھآٹاہیادھارمانگلےجومیںاسےنہیںدےسکتا۔۔۔۔دوستیالگچیزہےاورآٹاایکالگچیزہےاورمیںاندونوںکواکھٹاکرکےپریشاننہیںہوناچاہتا،کیونکہیہدونوںمختلفالفاظہیں۔۔۔انکیہجےتکمختلفہے! ہرکوئیدیکھسکتاہےکہیہدونوںالفاظکتنےمختلفہیں۔۔۔۔!‘‘ ’’اوہتماتنااچھاکیسےبوللیتےہو۔۔۔۔؟‘‘چکیوالےکیبیویبولیجوایکبڑےپیالےمیںگرمگرمسوپانڈیلرہیتھی؛’’ مجھپرتوانباتوںکااتناگہرااثرہواہےکہجیسےمیںکسیپادریکیتقریرسنرہیہوں۔‘‘ ’’بہتسےلوگاچھےکامکرلیتےہیں۔۔۔‘‘چکیوالابولا؛’’مگرچندہیلوگایسےہیںجواچھابولسکتےہیں۔۔۔۔! اسسےظاہرہوتاہےکہاچھابولناکتنامشکلکامہے۔۔اورحقیقتاًایکبہترینکامبھی! ‘‘پھرچکیوالےنےحقارتسےاپنےچھوٹےبیٹےکودیکھاجواپنیباتپرشرمندگیمحسوسکررہاتھا،اسنےسرجھکارکھاتھا،گوکہوہشرمندگیسےسرخہورہاتھاتاہموہاتناچھوٹاتھاکہمعذرتنہیںکرسکتاتھا۔ ’’ کیایہاںکہانیختمہوگئی۔۔۔؟‘‘پانیکےچوہےنےپوچھا ’’بالکلنہیں۔۔۔۔۔یہتوشروعاتہیں۔‘‘ چڑیابولی ’’اچھا۔۔۔۔توپھرآگےبولو۔‘‘چوہابولا؛’’ اسکہانیمیںمجھےچکیوالےکاکرداربہتپسندآیاکیونکہاسکےاورمیرےخیالاتبہتملتےہیں۔‘‘ پھرجیسےجیسےسردیختمہونےلگیاورپیلےپیلےبسنتیپھولکھلنےلگےتوچکیوالےنےاپنیبیویسےکہا؛ ’’ابمجھےچھوٹےہنسسےملنےکےلئےجاناچاہیئے۔۔۔۔!‘‘ ’’اوہتمہارادلکتنااچھاہے۔۔۔۔! تمہیںہمیشہدوسروںکاخیالرہتاہے،اورہاںجاتےہوئےپھولوںکےلئےبڑیوالیٹوکریلےجانامتبھولنا۔‘‘ چکیوالےنےاپنیآٹےکیچکیبندکیاورہاتھمیںایکبڑیسیٹوکریلئےپہاڑیسےنیچےہنسکےگھرجانےوالےراستےپرچلپڑا۔ ’’صبحبخیرچھوٹےہنس۔۔۔۔!‘‘چکیوالاخوشدلیسےبولا ’’ اوہصبحبخیر۔۔۔۔!‘‘ ہنسخوشہوتےہوئےبولاجوبیلچےسےزمینکھودنےمیںمصروفتھا۔ ’’ اورسناؤتمہاریسردیکیسیگزری۔۔۔۔؟‘‘چکیوالےنےپوچھا ’’ بسگزریہیگئی۔۔!‘‘ ہنسبولا؛’’ تمہاریبہتمہربانیکہتمنےمیراحالپوچھا۔اسدفعہسردیکچھزیادہہیسختتھیمیںتوڈرہیرہاتھا۔۔۔۔۔مگرشکرہےکہاببہارآچکیہےاورمیرےتمامپھولپودےاچھےطریقےسےپھلپھولدےرہےہیں۔‘‘ ’’ ہمسردیمیںاکثرتمہاریباتیںکرتےتھےاورہمحیرانتھےکہتمکیسےگزارہکرتےہو۔۔۔۔؟‘‘چکیوالابولا ’’یہتوآپکیمہربانیہے۔۔۔!‘‘ ہنسبولا؛’’میںتوخوفزدہتھاکہکہیںآپمجھےبھولتونہیںگئے۔۔۔!‘‘ ’’مجھےتمپرحیرتہےہنسؔ۔۔۔!بھلادوستبھیکوئیبھلانےوالیچیزہے۔۔۔؟‘‘چکیوالابولا؛’’ ویسےتمہارےپیلےپیلےبسنتیپھولکتنےپیارےلگرہےہیں۔۔۔!‘‘ ’’ہاںواقعییہبہتپیارےہیں۔۔۔۔اورمیریخوشقسمتیہےکہیہاتنیزیادہتعدادمیںکھلےہیںابمیںانہیںمارکیٹمیںبیچنےکےلئےجارہاہوں،انکوبیچکرمیںاپنیمٹیاٹھانےوالیریڑھیواپسلونگاجومیںنےگِرویرکھوائیتھی۔‘‘ہنسخوشیسےبولا ’’کتنیاحمقانہباتہے۔۔۔۔!‘‘ چکیوالابولا ’’ ہاںہےتو۔۔۔۔۔‘‘ ہنسنےکہا؛’’ مگریہحقیقتہے!تمہیںتومعلومہےمیرےلئےسردیوںکاموسمکتنابراہوتاہے،مجھےپیسوںکیسختضرورتتھی۔میرےپاستوڈبلروٹیتکخریدنےکےلئےپیسےنہیںتھے،لہٰذاپہلےمیںنےاپنےچرچوالےکوٹکےچاندیکےبٹنبیچے،پھرچاندیکیزنجیربیچی،پھرمیںنےاپناپینےوالابڑاپائپبیچا،آخرکارریڑھیبھیبکگئی۔۔۔۔۔۔۔! مگرابمیںوہسبچیزیںواپسخریدنےجارہاہوں۔‘‘ ’’ہنس۔۔۔!‘‘ چکیوالابولا،’’میںتمہیںاپنیریڑھیدےدونگا،گوکہاسکیایکسائڈبالکلٹوٹچکیہے،اسکےپہیوںمیںبھیکچھخرابیہے۔۔۔۔۔پھربھیمیںوہتمہیںدےدوںگا،میںجانتاہوںکہمیںبہتسخیہوںاوراسیدریادلیکیوجہسےلوگمجھےاحمقکہتےہیں،لیکنمیںاورلوگوںکیطرحنہیںہوں۔۔!میرےخیالمیںسخاوتہیدوستیکانچوڑہے،میراکیاہےمیںنئیریڑھیخریدلونگا !لہٰذاابتمفکرنہیںکرنا۔‘‘ ہنسکاچہرہخوشیسےچمکنےلگا،وہبولا؛’’واقعییہتوتمہارابہتبڑااحسانہوگامجھپر۔۔۔۔! میںآسانیسےاسکیمرمتکرلوںگامیرےپاسلکڑیکےکچھتختےپڑےہیں۔‘‘ ’’ کیا۔۔۔۔۔۔لکڑیکےتختے۔۔۔؟‘‘ چکیوالاحیرتسےبولا؛’’مجھےبھیاپنےباڑےکیچھتمرمتکرنےکےلئےکچھتختےچاہیئں۔چھتمیںبہتبڑاسوراخہوگیاہے،اگراسکیمرمتنہہوئیتومیراسارااناجبھیگجائےگا۔۔۔! یہتوبہتاچھاہواکہتمنےتختوںکاذکرکردیا۔یہکتنیصحیحباتہےکہنیکیکبھیرائیگاںنہیںجاتیاسکابدلہضرورملتاہے۔۔۔۔میںنےتمہیںریڑھیدیاورابتممجھےاپنےتختےدینےجارہےہو۔گوکہمیریریڑھیانتختوںسےزیادہقیمتیہےلیکنسچیدوستیمیںانچیزوںکیکوئیاہمیتنہیںہوتی۔ابتممجھےفوراًوہتختےدےدوتاکہمیںاپناکامکرلوں۔‘‘ ’’ہاںکیوںنہیں۔۔۔!‘‘ ہنسبولااوربھاگاہوااندراسٹورمیںگیااورلکڑیوںکاایکگٹھہگھسیٹتاہوالےآیا۔ ’’ اوہیہتوکوئیزیادہتختےنہیںہیں۔۔۔؟‘‘ چکیوالاتختوںکودیکھتےہوئےبولا؛’’ میرےخیالمیںیہتومیریچھتکیمرمتمیںہیلگجائیںگے،تمہاریریڑھیکےلئےتوکچھبچےگاہینہیں،لیکناسمیںمیراکیاقصورہے۔ابجبکہمیںنےتمہیںاپنیریڑھیدیہےتوبدلےمیںتمبھیمجھےکچھدوگےہینا۔۔۔یہٹوکریپھولوںسےبھردو۔۔۔۔!‘‘چکیوالاہنسکوایکبڑیٹوکریپکڑاتےہوئےبولا ’’ اسکوبھردوں۔۔۔۔؟‘‘ ہنسغمزدہآوازمیںبولا،کیونکہوہٹوکریبھرنےکےبعداسکےپاساتنےپھولنہبچتےجنکوبیچکروہاپنیگِرویچیزیںچھڑاسکتا ’’ ہاںبھردو۔۔۔۔! ‘‘ چکیوالابولا؛’’لیکنتمہیںیہزیبنہیںدیتاکہانچندپھولوںکےلئےتماسطرحکاسوالکروجبکہمیںتمہیںاپنیریڑھیبھیدےچکاہوں۔مجھےافسوسہے،میںنےتوسوچاتھاکہسچیدوستیمیں۔۔۔۔۔سچیدوستیمیںاسقسمکیخودغرضانہباتوںکیکوئیگنجائشنہیںہوتی۔۔۔!‘‘ ’’اوہمیرےپیارےدوست۔۔۔۔۔میرےاچھےدوست۔۔۔!‘‘ہنسجذباتیہوگیا؛’’ تمہارےلئےمیرےباغکےتمامپھولحاضرہیں۔تمہارےاتنےاچھےخیالاتمیرےچاندیکےبٹنوںسےکہیںزیادہقیمتیہیں۔‘‘ وہبھاگاہواباغمیںگیااوراپنےتمامخوبصورتپیلےبسنتیپھولتوڑتوڑکرٹوکریبھردی۔ ’’اچھاخداحافظچھوٹےہنس۔۔۔!‘‘ یہکہہکرچکیوالےنےایکہاتھمیںلکڑیکےتختوںکاگٹھااوردوسرےہاتھمیںپھولوںکیٹوکریاٹھاکراوپرپہاڑیپرچڑھنےلگا۔ ’’خداحافظدوست۔۔۔!‘‘ ہنسنےبھیکہااورخوشیخوشیپھرسےاپنیزمینکیکھدائیمیںمصروفہوگیا۔وہچکیوالےکیدیہوئیریڑھیکےبارےمیںسوچسوچکرخوشہورہاتھا۔اگلےدنجبہنساپنےباغیچےکیدیوارپربیلیںچڑھارہاتھاتواسےچکیوالےکیآوازآئیجوباہرسڑکپرکھڑاہنسکوپکاررہا تھا
ہنس نے باغیچے کی دیوار سے باہر جھانک کر دیکھا۔باہر چکی والا ا یک بڑا آٹے کا تھیلا اپنی کمر پر لادے کھڑا تھا،بولا؛’ پیارے چھوٹے ہنس۔۔۔کیا تم میری خاطر یہ آٹے کا تھیلا مارکیٹ لے جا ؤگے۔۔۔۔؟‘‘’’اوہ مجھے افسوس ہے۔۔۔۔۔دراصل آج میں بہت مصروف ہوں۔آج مجھے تمام بیلیں دیوار پر چڑھانی ہیں اورتمام پھولوں کو پانی دینا ہے ،پھر لان کی گھاس کاٹنی ہے۔‘‘’’ اچھا واقعی۔۔۔۔؟‘‘چکی والا مصنوعی حیرت سے بولا؛’’ میرا تو خیال تھا کہ اب جبکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی دے رہا ہوں تو تم مجھے انکار نہیں کروگے،یہ بہت غیر دوستانہ عمل ہے۔‘’’ اوہ ۔۔۔۔ایسا مت کہو!‘‘ ہنس شرمندہ ہوکر بولا؛’’میں دوستی کو تمام دنیا پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘وہ دوڑا ہوا اندر گیااور اپنی ٹوپی اٹھا لایا، پھر جلدی سے آٹے کا تھیلا کمر پر لاد کرمارکیٹ کی طرف چل پڑا۔اس دن بہت گرمی تھی اور سڑک پر دھول بھی تھی،ہنس ابھی چھ میل ہی چلا تھا کہ تھک گیا،وہ آرام کرنا چاہتا تھا پھر بھی چلتا رہا اور آخر کا ر مارکیٹ پہنچ گیا۔وہاں کچھ دیر ٹہرا اور بہت اچھی قیمت پر آٹے کا تھیلا فروخت کیا اور پھر فوراً ہی واپس لوٹ آیاکیونکہ اسے ڈر تھا کہ اگر راستے میں دیر ہوگئی تو چور ڈاکوؤں سے واسطہ نہ پڑ جائے۔’’اوہ بہت تھکا دینے والا دن تھا۔۔۔!‘‘ہنس نے رات کو اپنے بستر پر جاتے ہوئے سوچا،’’لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں نیچکی والے کو انکار نہیں کیا کیونکہ وہ میرا بہترین دوست ہے،پھر اپنی ریڑھی بھی تو مجھے دے رہا ہے۔‘‘اگلے دن صبح صبح ہی چکی والا اپنے آٹے کے پیسے لینے پہنچ گیا، ہنس ابھی تک اپنے بستر پر تھا،اس کو دیکھ کر چکی والا بولا؛ ’’تم بہت ہی سُست ہو۔۔۔۔۔۔!اب جبکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی دے رہا ہوں تو تمہیں زیادہ محنت سے کام کرنا چاہیئے،بے کاری بہت بڑا گناہ ہے اس لئے میں نہیں چاہتا کہ میرا دوست بیکار بیٹھے۔ مجھے یقین ہے کہ تمہیں میری بات بُری نہیں لگی ہوگی کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی دوستی کا کیا فائدہ جس میں دوست کو صحیح بات نہ بتائی جائے چاہے وہ کڑوی ہی کیوں نہ لگے۔‘‘
’’مجھے معاف کردو دوست۔۔۔۔!‘‘ ہنس شرمندہ ہوتے ہوئے بولا،’’مگر میں اتنا تھک گیا تھا کہ دل چاہا تھوڑی دیر اور لیٹا رہوںبستر میں اور پرندوں کو گاتے ہوئے سنتا رہوں۔۔۔۔۔تمہیں معلوم ہے کہ پرندوں کا گانا سننے کے بعد میں زیادہ اچھے طریقے سے کام کرتا ہوں۔‘‘
’’چلو اچھا ہے۔۔۔۔مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی۔اب تم جلدی سے کپڑے بدل کر اوپر میری مِل میں آجاؤ کیونکہ تمہیں باڑ ے کی چھت بھی مرمت کرنی ہے۔‘‘ مِلر ہنسؔ کی کمر تھپتھپا تے ہوئے بولا
بے چارہ ہنس تو اپنے باغیچے میں جاکر کام کرنے کے لئے بے چین تھا کیونکہ اس نے دو دن سے پودوں کو پانی بھی نہیں دیا تھا مگر وہ چلی والے کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔لہٰذا اس نے ڈرتے ڈرتے کہا؛
’’اگر میں یہ کہوں کہ آج میں بہت زیادہ مصروف ہوں ۔۔۔۔۔تو تم میری دوستی پر شک تو نہیں کروگے۔۔۔؟‘‘
’’اب جبکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی بھی دے رہا ہوں تو تمہیں اس طرح کہنا تو نہیں چاہیئے تھا،لیکن پھر بھی اگر تم انکار کرتے ہو تو میں خود ہی یہ کام کر لوں گا۔‘‘چکی والا کچھ خفا ہوتے ہوئے بولا
’’اوہو میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔!‘‘ ہنس چلایا اورچھلانگ لگا کر بستر سے نکلا،کپڑے بدل کر باڑے کی دوڑ پڑا۔
چھوٹا ہنس وہاں تمام دن کام کرتا رہا اور جب سورج غروب ہوگیاتو چکی والا دیکھنے آیاکہ اس نے کیا کام کیا ہے۔
’’اوہ۔۔۔کیا تم چھت مرمت کر چکے۔۔۔؟‘‘چکی والا نے خوشی سے پوچھا
’’ہاں۔۔۔۔بالکل مرمت ہوگئی۔‘‘ہنس سیڑھی سے نیچے اترتا ہوا بولا
’’آہ کام اچھاوہی ہوتا ہے جو انسان دوسروں کے لئے کرے۔۔۔۔!‘‘ چکی والا بہت خوش تھا
’’تمہارے منہ سے اتنی اچھی باتیں سننا میرے لئے فخر کا باعث ہے۔‘‘ہنس بولا،’’میرے ذہن میں ایسی باتیں کبھی نہیں آتیں جیسی تم کر لیتے ہو۔‘‘
’’اوہ تم بھی کر سکتے ہو۔۔۔۔۔لیکن اس کے لئے تمہیں اور زیادہ تکلیفیں سہنی پڑیں گی ،فی الحال تو تم اچھے دوست بننے کی کوشش کرو۔۔۔۔ اچھی باتیں خود بخود آجائیں گی۔‘‘
’’کیا واقعی۔۔۔۔؟‘‘ہنس خوشی سے بولا
’’ہاں ہاں بالکل۔۔۔!‘‘چکی والا بولا؛’’مگر فی الحال تم گھر جا کر آرام کروکیونکہ تم بہت تھک گئے ہوں گے،کل صبح تم نے میری بھیڑوں کو چرانے کے لئے پہاڑ پر بھی لے جانا ہے۔‘‘
اگلی صبح چکی والا اپنی بھیڑیں لے کر ہنس کے جھونپڑے میں پہنچ گیا۔ہنس بے چارہ دوستی کے مارے انکار بھی نہیں کر سکااوراس کی بھیڑیں لے کر پہاڑ پر چلا گیا۔
سارا دن بھیڑیں چرا کر جب شام کو گھر لوٹا تو وہ اتنا تھک چکا تھا کہ اپنی آرام کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سو گیااور اگلی صبح کہیں دن چڑھے اس کی آنکھ کھلی۔
غرضیکہ ہنس بے چارہ کبھی زیادہ عرصے تک اپنے باغیچہ کی دیکھ بھال نہ کر سکا کیونکہ چکی والا اسے دوستی کا طعنہ دے دے کر اپنے ہی کام سے لگائے رکھتا ۔ہنس بہت پریشان ہوجاتا۔۔۔۔۔۔اسے یہ بھی فکر تھی کہ اس کے پھول کیا سوچتے ہوں گے کہ میں انہیں بھول ہی گیا۔لیکن یہ سوچ کر وہ خود کو تسلی دے لیتا کہ چکی والا اس کا بہترین دوست ہے اور پھر وہ اسے اپنی ریڑھی بھی تو دے رہا ہے اس کی یہ مہربانی کیا کم ہے۔ ٍٍٍٍٍٍٍٍ
اس طرح چھوٹا ہنس چکی والے کے کام کرتا رہا اور چکی والا اس کو دوستی کے بارے میں اچھی اچھی باتیں بتاتا رہتا جنہیں ہنس اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیتا اور رات کو فرصت کے وقت بیٹھ کر پڑھتا۔
اور پھر ایک سرد رات۔۔۔۔۔جب چھوٹا ہنس اپنے آتشدان کے قریب بیٹھا اونگھ رہا تھا تو بہت زور سے دروازہ بجا۔۔۔!وہ بہت خوفناک رات تھی ،طوفانی ہوائیں چنگھاڑ رہی تھیں۔۔۔۔!پہلے تو ہنس سمجھا کہ ہوا سے دروازہ بج رہا ہے،لیکن دروازہ دوبارہ بجا۔۔۔۔۔ پہلے سے بھی زیادہ زور سے۔۔!
’’ضرور کوئی مصیبت ذدہ مسافر ہوگا۔۔۔۔!‘‘ ہنس نے سوچا اور دروازے کی طرف دوڑا۔لیکن دروازے پر چکی والا کھڑا تھا ۔۔۔۔۔ایک ہاتھ میں لالٹین تھی اور دوسرے میںچھڑی۔
’’ پیارے چھوٹے ہنس! میں مصیبت میں ہوں۔۔۔!‘‘ چکی والا زور سے چلایا؛’’ میرا چھوٹا بیٹا سیڑھیوں سے گِر کر زخمی ہوگیا ہے اور میں ڈاکٹر کو لینے جارہا تھا۔۔۔۔۔ لیکن وہ بہت دور رہتا ہے اور آج کی رات بہت خوفناک ہے۔۔۔۔! تو میں نے سوچا کہ اگر میری جگہ تم وہاں چلے جاؤ تو بہتر ہے،اب جبکہ میں تمہیں اپنی ریڑھی بھی دے رہا ہوں تو تمہیں بھی تو بدلے میں میرے لئے کچھ کرنا چاہیئے۔۔۔!‘‘
’’یقیناً۔۔۔۔۔ یہ تو میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ تم خود چل کر میرے پاس آئے ہو۔میں ابھی فوراً جاتا ہوں لیکن مجھے تمہاری لالٹین کی ضرورت پڑے گی کیونکہ رات بہت اندھیری ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کسی گڑھے میں نہ گِر جاؤں۔‘‘ہنس فکر مندی سے بولا
’’ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں اپنی لالٹین نہیں دے سکتا کیونکہ یہ بالکل نئی ہے،اگر یہ خراب ہو گئی تو میرا بڑا نقصان ہو جائے گا۔‘‘
’’چلو کوئی بات نہیں۔۔۔۔میں اس کے بغیر ہی چلا جاؤں گا۔‘‘ہنس نے اپنا برساتی کوٹ پہنا،بڑا سا ہیٹ اٹھایا اور گلے میں مفلر باندھ کر چل پڑا۔
باہر بہت سخت طوفان تھا،رات اتنی سیاہ تھی کہ ہنس کو راستہ بمشکل دکھائی دے رہا تھا،اور ہوا اتنی شدید تھی کہ چلنا بھی دشوار ہو رہا تھا۔تاہم ہنس نے بہت ہمت سے کام لیا اور چلتا رہا چلتا رہا۔۔۔۔۔۔۔بالآخر تین گھنٹے میںکہیں جا کر ڈاکٹر کے گھر پہنچا اور اس کے دروازے پر دستک دی۔
’’کون ہے۔۔۔۔۔؟‘‘ ڈاکٹر نے اپنے بیڈ روم کی کھڑکی سے سر نکال کر پو چھا
’’میں چھوٹا ہنس ڈاکٹر۔۔۔۔!‘‘ہنس نے جواب دیا
’’کیا بات ہے ہنس۔۔۔۔؟‘‘ڈاکٹر نے پھر پوچھا
’’چلی والے کا بیٹا سیڑھی سے گِر کر زخمی ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔اس نے تمہیں بلایا ہے۔‘‘
’’ بہت اچھا۔۔۔۔میں آتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنا گھوڑا نکالا،لالٹین اٹھائی اور باہر آگیا۔وہ گھوڑے پر بیٹھ کرچکی والے کے گھر کی طرف چل پڑا۔ہنس بھی گرتا پڑتا اس کے پیچھے ہولیا۔۔۔۔!
طوفان شدید سے شدید تر ہوتا گیااور موسلادھار بارش بھی شروع ہوگئی،اب تو ہنس کو کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھاکہ وہ کہاں جا رہا ہے اور ڈاکٹر کا گھوڑا کدھر کو گیا۔آخر کار ہنس راستہ بھٹک گیااور کہیں کا کہیں نکل گیا۔۔۔۔! وہ بہت خطرناک جگہ تھی،ہر طرف گڑھے اور گہری کھائیاں تھیں۔۔۔۔۔اور ایسی ہی ایک کھائی میں چھوٹا ہنس بھی گر گیا اور ڈوب کر مر گیا۔اگلے دن چرواہوں کو ایک کھائی میں تیرتی ہوئی اس کی لاش ملی جو انہوں نے اس کے جھونپڑے میں پہنچا دی۔
ہر کوئی اس کے جنازے میں شریک تھاکیونکہ چھوٹا ہنس ہر دل عزیز تھا،سبھی اس سے پیار کرتے تھے، سب سے آگے آگے چکی والا تھا،
’’کیونکہ میں اس کا سب سے اچھا دوست تھا اس لئے مجھے سب سے آگے جگہ ملنی چاہیئے۔۔۔۔!‘‘چکی ولا بولا،اس نے سیاہ چُغہ پہن رکھا تھااور بڑے سے رومال سے اپنی آنکھیں صاف کر رہا تھا۔
’’چھوٹے ہنس کی موت ہم سب کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔۔۔!‘‘ گاؤں کا لوہار بولا
اب سب لوگ جنازے سے فارغ ہوکر ایک ہوٹل میں بیٹھے میٹھا کیک کھا رہے تھے اور نمکین چائے پی رہے تھے
’’سب سے بڑا نقصان میرے لئے ہے۔۔۔۔!‘‘ چکی ولا بولا؛’’کیونکہ میں اس کواپنی ریڑھی دے رہا تھا،اب مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں ریڑھی کا کیا کروں گا کیونکہ میں اس کو اپنے گھر میں بھی نہیں رکھ سکتا اور وہ اتنی بری حالت میں ہے کہ اس کو بیچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔!آئندہ میں اپنی کوئی چیز کسی کو نہیں دوںگا،سخی ہونابھی ایک مصیبت ہے۔‘‘
’’اچھا ،کہانی ختم۔۔۔؟‘‘ پانی والا چوہا بولا
’’ہاں،یہاں کہانی ختم ہوتی ہے۔۔۔۔!‘‘ چڑیا بولی
’’اور چکی والے کا کیا بنا۔۔۔۔؟‘‘ چوہے نے پوچھا
’’مجھے نہیں معلوم۔۔!‘‘ چڑیا بولی؛’’نہ ہی مجھے اس کی پرواہ ہے۔‘‘
’’کیوں۔۔۔۔۔ چکی والے کے لئے تمہارے دل میں کوئی ہمدردی نہیں۔۔۔۔۔؟‘‘ چوہا بولا
’’میرا خیال ہے کہ تم نے اس کہانی کے سبق پر دھیان نہیں دیا۔۔۔؟‘‘ چڑیا بولی
’’کیا اس کہانی میں کوئی سبق بھی تھا۔۔۔۔؟‘‘ چوہا حیرانی سے بولا
’’ہاں اور کیا۔۔۔۔۔!‘‘ چڑیا نے جواب دیا
’’ اوہ۔۔۔۔۔اگر تم مجھے پہلے بتا دیتیں کہ اس کہانی میں کوئی سبق بھی ہے تو میں یہ کہانی بالکل نہیں سنتا۔۔۔۔۔بلکہ ’’پوہ‘‘کہہ دیتا۔چلو اب کہے دیتا ہوں’’پوــہ‘‘۔۔۔۔!‘‘چوہا یہ کہہ کراپنی لمبی دم سمیٹ کر بل میں گھس گیا،اور چڑیا کو افسوس ہو رہا تھا کہ ایک سبق آموز کہانی سنا کر اس نے چوہے ناراض کر دیا۔
ترجمہ: آسکر وائلڈ کی کہانی ’’ڈیوٹڈ فرینڈ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Author: tasneem
Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.
View all posts by tasneem