Choto Miyan چھوٹو میاں

robot

    چھوٹو میاں
ایک ایسے روبوٹ بچے کی کہانی جس میں انسانی دماغ ڈال دیا گیا….  اور وہ اپنے آپ کو انسان سمجھنے لگا

عظیم کی ممی اس کو جگانے کے لیے اس کے کمرے میں آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ عظیم کچھ بڑبڑا رہا ہے ، جیسے کسی سے باتیں کر رہا ہو ۔
’’ عظیم ……  عظیم……   بیٹا اُٹھو !   ‘‘  ممی نے عظیم کا پائوں پکڑ کر ہلایا تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا جیسے کچھ تلاش  کر رہا ہو ۔
’’ کیا بات ہے بیٹا !   ابھی تک نیند میں ہو ؟ ‘‘ ممی نے اسے پھر ہلایا تو وہ چونکا ۔
’’ اوہ ممی ، آپ !   شاید میں خواب دیکھ رہا تھا ‘‘ عظیم آنکھیں ملتا ہوا بولا ۔
’’ خیریت تو ہے بیٹا !   کس قسم کا خواب دیکھ رہے تھے جو ابھی تک اس کے اثر میں ہو !   ‘‘ ممی پریشان ہو کر اس کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔
’’ ممی ، میں نے عجیب خواب دیکھا !   میں نے دیکھا ، میں نے ایک روبوٹ بنایا ہے جو بالکل انسانوں کی طرح سوچتا ہے اور بولتا ہے اور انکل احسن کہتے ہیں کہ اس روبوٹ میں تمہارا دماغ ہے ۔ ممی اس خواب کا کیا مطلب ہوا ؟ ‘‘ عظیم نے سوال کیا ۔
’’ خواب میں روبوٹ دیکھنے کا کیا مطلب ہوتا ہے ، یہ تو مجھے نہیں پتا ، ہاں البتہ تمہیں روبوٹ نظر آنے کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں ……  ایک تو یہ کہ تم سونے سے پہلے روبوٹ سے متعلق کوئی فلم دیکھ رہے ہوگے جو سونے کے بعد بھی تمہارے ذہن میں رہ گئی ہوگی ۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ تمہارا کوئی چھوٹا بہن بھائی نہیں ہے۔ اسی لیے بچپن سے تمہاری یہ خواہش تھی کہ تمہارا کوئی بہن بھائی ہوتا جو بالکل تمہاری طرح ہوتا ۔ ہوسکتا ہے کہ اسی خواہش نے خواب کی صورت اختیار کرلی ہو ۔ ‘‘ ممی نے دو بڑی معقول وجوہ بتائیں ۔
’’ او ۔ نو ۔ ممی !   یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں، کیونکہ نہ تو میں نے رات کوئی فلم دیکھی ہے ، نہ بچپن کا کوئی خیال اب میرے ذہن میں ہے ۔ یہ خواب تو میں پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا ہوں ، وہ بالکل یہاں میرے پاس کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا تھا ۔ ‘‘ عظیم نے جواب دیا۔ وہ خود بھی اب اپنے اس خواب سے پریشان ہوگیا تھا ۔
’’ اچھا چلو ، اب چھوڑو اس خواب کو اور تیار ہو جائو ، کالج نہیں جانا کیا ؟ ‘‘ ممی نے عظیم کو پریشان دیکھا تو بات بدلتے ہوئے کہا ۔
تھوڑی ہی دیر میں عظیم تیار ہوکر آگیا۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا ، پھر اپنی موٹر بائیک نکال کر کالج روانہ ہوگیا ۔ وہ بہت تیز موٹربائیک چلاتا تھا اس لیے سیکنڈوں میں نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔
’’ یا اللہ خیر !  ‘‘ممی کے منہ سے نکلا ، ’’ یہ موٹر سائیکل بھی کتنی خطرناک سواری ہے !   آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ عظیم کو اپنے ساتھ گاڑی میں کالج لے جایا کریں ، مگر آپ سنتے ہی نہیں ‘‘ ۔
’’ بھئی اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے ؟ ‘‘ ڈیڈی نے سمجھاتے ہوئے کہا !   ’’ زیادہ تر لڑکے یہی سواری استعمال کرتے ہیں ۔ مجھے تو اسے ساتھ لے جانے میں کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کو کالج جلدی جانا ہوتا ہے اور میں دیر سے جاتا ہوں ۔ پھر اس کا کالج بھی میری یونیورسٹی سے دور ہے اور میں ویسے بھی اس کو اپنا پابند نہیں کرنا چاہتا ۔ وہ کوئی بچہ تھوڑا ہی ہے ، کمپیوٹر انجینئرنگ کے آخری سال میں ہے ۔ اس کے اپنے دوست ہیں ، اپنی مصروفیات ہیں ۔ ‘‘  ایک ماں ہونے کے ناطے ان باتوں سے ممی کی تسلی تو نہ ہوئی لیکن وہ پھر بھی  چُپ کر گئیں ۔
عظیم کے ڈیڈی احمد علی ، ایک یونیورسٹی میں جینیٹکس (Genetics) کے پروفیسر تھے اور پروفیسر ڈاکٹر احسن علی کے ساتھ مل کر جینیٹک کوڈنگ پر ریسرچ بھی کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر احسن علی ، احمد علی کے دوست بھی تھے اور ملک کے بہت بڑے نیوروسرجن بھی ۔ یہ دونوں مل کر جینیٹکس کی دنیا میں بہت سے کارہائے نمایاں انجام دے چکے تھے ۔
’’ ممی آج میں نے پھر وہی خواب دیکھا !  ‘‘ عظیم نے اگلی صبح اٹھ کر انکشاف کیا ۔
میرے بیٹے نے آج پھر کون سا خواب دیکھ لیا ؟ ‘‘ ڈیڈی نے پوچھا ۔
’’ اتنا بڑا ہوگیا ، مگر خواب ابھی تک بچوں والے دیکھتا ہے ‘‘ ممی بولیں  ’’ کہتا ہے خواب میں روبوٹ نظر آتا ہے جو باتیں بھی کرتا ہے ۔‘‘
ڈیڈی نے سوالیہ نظروں سے عظیم کی طرف دیکھا تو عظیم نے وہی خواب ڈیڈی کو بھی سنایا ۔
’’ ارے بیٹا تو اس میں مشکل کیا ہے ؟ بنا ڈالو اپنے خواب کو حقیقت ۔ تم اتنے لائق طالب علم ہو ، او ۔ لیول ، اے ۔ لیول میں پوری دنیا میں ٹاپ کرچکے ہو، اب انشا اللہ کمپیوٹر انجینئرنگ میں بھی ٹاپ کرو گے ۔ کوئی کارنامہ کرکے دکھائو تو جانیں ۔ تم خود روبوٹ بنائو ، تمہارے انکل احسن اس میں دماغ ڈال دیں گے ۔ ڈیڈی نے عظیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا ۔ ‘‘
’’ یس ……  زبردست آئیڈیا !  ‘‘ عظیم نے ڈیڈی کی حمایت پاکر خوشی سے مُکا ہوا میں لہرایا ۔
’’ ارے !   آپ بھی کمال کرتے ہیں ، یہ اتنا بڑا ہوکر بچوں والے خواب دیکھ رہا ہے اور آپ اس کا ساتھ دے رہے ہیں ؟ ‘‘ ممی ناراض ہوکر بولیں ۔
’’ اوہو ، بھئی کیا آپ نہیں جانتیں کہ جو خواب بار بار آئے وہ سچا ہوتا ہے ؟ اور پھر کیا آپ کو اپنے بیٹے کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں ؟ کیا یہ روبوٹ نہیں بنا سکتا ؟ ویسے بھی یہ کون سی نئی بات ہوگی ؟ ساری دنیا روبوٹ بنا رہی ہے، بس پاکستان ہی اس کام میں پیچھے رہ گیا ہے ۔ ‘‘ ڈیڈی نے پھر بیٹے کی حمایت کی ۔
’’ میری پیاری ممی !   آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں ، دیکھنا وہ روبوٹ تو آپ کے بھی سب کام کرے گا !  ‘‘ عظیم نے ممی کو لالچ دیا ۔
’’ دفع کرو ………..  !   مجھے اس موئی مشین سے کوئی کام نہیں کرانا ، میرے اپنے ہاتھ سلامت ہیں۔ میں خود ہی اپنے سارے کام کرسکتی ہوں۔‘‘
ممی بڑبڑاتی ہوئی کچن میں چلی گئیں ۔ عظیم اور ڈیڈی دیر تک ہنستے رہے۔ پھر عظیم اٹھا اور باہر کی طرف چل پڑا ۔
’’ اچھا ممی !   میں ذرا دوست کی طرف جارہا ہوں ‘‘ یہ کہہ کر عظیم نے موٹر بائیک نکالی ، تیزی سے سٹارٹ کی اور یہ جا ، وہ جا ۔۔۔۔۔ اِدھر ممی کھڑی بولتی رہیں اور بیٹے کی خیریت کی دعا کرتی رہیں ۔
عظیم کو گئے ابھی آدھا ہی گھنٹہ ہوا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی ۔ ڈیڈی نے فون اٹھایا تو عظیم کے دوست کا فون تھا۔ وہ بولا ’’ انکل …….   وہ ……..  دراصل ……..  مجھے یہ کہنا تھا ……..  عظیم ……..  وہ عظیم …….. ‘‘ وہ ہکلانے لگا ۔
’’ ہاں ہاں بیٹا ، بولو ، کہاں ہے عظیم ؟ ‘‘ ڈیڈی جلدی سے بولے ۔
’’ دراصل ……..  انکل ……..  عظیم کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے !  ‘‘ وہ جلدی سے بولا ۔
’’ میں بھی اس کے ساتھ تھا ۔ ہماری ایک ٹرک سے ٹکر ہوگئی تھی ۔ میں پیچھے تھا اس لیے کم چوٹیں آئیں ، ہیلمٹ نہ ہونے کی وجہ سے عظیم کے سر پر شدید چوٹ آئی ہے اور وہ ہسپتال میں ہے۔ آپ جلدی سے……..  ‘‘
بات پوری ہونے سے پہلے ہی ڈیڈی کے ہاتھ سے ریسیور چھوٹ چکا تھا ۔ ممی یہ خبر سنتے ہی بے ہوش ہوگئیں اور ڈیڈی بھی ادھ موئے ہوگئے تھے ۔ لہٰذا وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔
عظیم کے ڈیڈی نہ جانے کس طرح ہسپتال پہنچے ۔ بیٹے کی حالت ان سے دیکھی نہ گئی ، انہوں نے پوچھا ’’ ڈاکٹر صاحب میرا بچہ بچ تو جائے گا نا ‘‘
’’ آپ اللہ سے دعا کریں ۔ وہی بہتر کارساز ہے۔ ہم تو اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ دراصل سڑک پر گرنے کی وجہ سے سر پر گہری چوٹ آئی ہے ۔ دماغ کھل گیا ہے ، اندرونی جھلی بھی پھٹ گئی ہے۔ بس بھیجہ باہر نہیں آیا۔ یہ ایک امید افزا بات ہے۔ ورنہ تو سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔ ‘‘
ڈاکٹر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ۔
’’ پروفیسر ڈاکٹر احسن علی جو ہمارے ملک کے سب سے بڑے نیوروسرجن ہیں، وہ یہ آپریشن کریں گے ۔ ویسے آپ چاہیں تو اپنی تسلی کے لیے اپنے بیٹے کو ملک سے باہر بھی لے جاسکتے ہیں ۔ ‘‘
’’ نہیں نہیں !   میں اس حالت میں اپنے بچے کو مزید تکلیف نہیں دوں گا ۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے ڈاکٹر احسن پر پورا بھروسا ہے ۔وہ عظیم کو بیٹا سمجھتے ہیں۔ اس کو ضرور بچا لیں گے ۔ ‘‘ عظیم کے ڈیڈی یقین سے بولے ۔
ڈاکٹر احسن علی نے پورے دھیان اور توجہ سے آپریشن کیا جو کامیاب رہا ۔ یہ یقیناً بہت مشکل اور صبر آزما وقت تھا ۔ سب نے خدا کا بہت شکر ادا کیا کہ اس نے عظیم کو نئی زندگی دی ۔
٭٭٭
عظیم کو مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں کچھ ماہ لگ گئے ۔ اس کی صحت یابی کی خوشی میں اس کے ممی ڈیڈی نے بہت بڑی پارٹی دی جس میں عظیم کے سب دوست ، اس کے ٹیچرز ، اور ڈیڈی کے سب کولیگزنے شرکت کی ، جن میں ڈاکٹر احسن علی سب سے نمایاں تھے ۔ سب نے مل کر عظیم کے ممی ڈیڈی کو اس کی صحت یابی پر مبارک باد دی ۔
پارٹی کے اختتام پر سب لوگ ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے ، لیکن ڈاکٹر احسن علی رک گئے ۔ شاید وہ کوئی ضروری بات کرنا چاہتے تھے ۔ جب عظیم اور اس کے ڈیڈی بھی فارغ ہوکر ان کے پاس بیٹھ گئے تو وہ گویا ہوئے’ ’ عظیم میاں !   میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں !  ‘‘ عظیم اور اس کے ڈیڈی وہ خاص بات سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوگئے ۔
’’ بات دراصل کچھ یوں ہے کہ میں نے آپ کی ایک چھوٹی سی چوری کرلی تھی ۔ ‘‘
’’ ہیں !   انکل ، آپ اور چوری ؟ آپ مذاق کر رہے ہیں ؟‘‘ عظیم بے یقینی سے بولا ۔
’’ اب بتا بھی دیں نا ! ‘‘ ڈیڈی بھی متجسس ہو کر بولے ۔
’’ وہ چوری دراصل تمہارے دماغ کی چوری ہے ۔ ‘‘ انکل احسن نے انکشاف کیا ۔
’’ کیا ؟ دماغ کی چوری ؟ انکل ، دل کی چوری تو سنا تھا ، دماغ کی چوری آج پہلی بار سنی ہے ، یہ کیسے ہوتی ہے ؟ ‘‘ عظیم مزید حیران ہوتے ہوئے بولا ۔
’’ ہم نے تمہارے دماغ کا صرف ایک خلیہ چوری کیا تھا !  ‘‘ انکل احسن عظیم کو سمجھاتے ہوئے بولے ، ’’ دراصل ہم اس پر کچھ تحقیقات کرنا چاہتے تھے ، اس ایک خلیے کی پرورش کرکے ایک پورا دماغ بنانا چاہتے تھے ۔ اب تک سائنسدانوں نے مصنوعی دل اور جگر تو بنا لیا ہے جو کامیابی سے کام بھی کر رہے ہیں ، مگر دماغ جیسے اہم ترین حصے پر ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے ۔ کیونکہ یہ جسم کا پیچیدہ ترین عضو ہے ۔ آپ کے دماغ کا آپریشن کرتے وقت مجھے اچانک یہ خیال آیا کہ کیوں نہ آپ کے دماغ سے ہی یہ ’’سٹیم سیل ‘‘ (Stem Cell)  لے لیا جائے، کیونکہ  ’’کلوننگ ‘‘ کے ذریعے ایک خلیہ تقسیم ہو کر مکمل عضو کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ اس طرح ہم ایک مکمل مصنوعی دماغ بنا سکتے تھے ۔ آپ کو تو خیر ایک خلیہ کی چوری سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ہمیں اس سے بے حد اہم کامیابی ملی ہے ۔ آپ کی وجہ سے ہمیں ایک جینئس ، ایک ذہین و فطین انسان کے دماغ کا خلیہ مل گیا ۔ اس کے لیے ہم آپ کے بہت شکرگزار ہیں ۔ ‘‘
’’ یعنی میرا سر پھٹنے سے آپ کو اتنا اہم تجربہ کرنے کا موقع مل گیا، انکل پھر تو ہمیں اس ایکسیڈنٹ کے لیے خدا کا بہت شکرگزار ہونا چاہیے۔‘‘ عظیم مسکراتے ہوئے بولا ۔
’’ بالکل !  ‘‘ احسن انکل بولے ، ’’ اور اب ہم نے اس مصنوعی دماغ پر اپنے تمام تجربات آزمائے ہیں اور جینیٹک کو ڈنگ کے ذریعے اس کی خامیاں اور ممکنہ بیماریاں دور کی ہیں تاکہ وہ پرورش پاکر ایک ایسا دماغ بنے جو ہر طرح سے مکمل ہو ، جس کو کسی بیماری اور انفیکشن کا خطرہ نہ ہو۔ اس طرح سے ہم کسی حادثے کا شکار ہونے والے یا کسی مہلک بیماری اور انفیکشن میں مبتلا ہو جانے والے شخص کا دماغ ٹرانسپلانٹ کرسکیں گے ۔ ‘‘
’’ واہ !   انکل آپ نے تو کمال کردیا، آپ نے نہ صرف میری جان بچائی بلکہ میرے جیسا ایک اور دماغ بھی تیار کرلیا ، یہ تو ایک تیر سے دو شکار کرنے والی بات ہوگئی ۔ ‘‘ عظیم تمام گفتگو سن کر بے حد خوش ہو رہا تھا جبکہ اس کے ڈیڈی صرف مسکرا رہے تھے کیونکہ اس تجربے میں وہ بھی شریک تھے ۔
’’ لیکن بیٹے !  ‘‘ ڈاکٹر احسن دوبارہ گویا ہوئے ، ’’ ابھی اس سلسلے میں کچھ قباحتیں باقی ہیں، کچھ مشکلات ہیں جن کے بغیر ہمارا یہ تجربہ بیکار ہے۔ وہ یہ کہ جب تک ہم اس مصنوعی دماغ کو کسی انسانی کھوپڑی میں فِٹ کرکے نہ آزما لیں تب تک ہمیں یہ علم ہی نہیں ہوسکے گا کہ آیا یہ دماغ صحیح طور پر کام کر بھی رہا ہے یا نہیں ۔ ‘‘
’’ تو انکل اس میں کیامشکل ہے آپ کسی بھی ایکسیڈنٹ شدہ یا مہلک بیماری میں مبتلا شخص کو استعمال کرسکتے ہیں ۔ ‘‘ عظیم نے انکل احسن کو مایوس ہوتا دیکھ کر آسان سا مشورہ دیا ۔
’’ نہیں بیٹا !   یہ کام اتنا آسان نہیں ہے ، ہم اس طرح کسی انسان کو تختۂ مشق نہیں بنا سکتے ۔ وہ اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ دماغ اس طرح کام نہ کرے جس طرح ہم سوچ رہے ہیں ۔ تب ایک بیکار دماغ کے ساتھ اس انسان کی زندگی تو تباہ ہوجائے گی ، اگر اس مصنوعی دماغ نے صحیح طور پر کام نہ کیا تو وہ انسان تو اپنا ہاتھ بھی نہ ہلا سکے گا ۔ ‘‘
’’ تو پھر انکل آپ اس دماغ کو کسی جانور ، جیسے بندر ……   وغیرہ پر آزما کر دیکھ لیں !  ‘‘ عظیم نے ایک اور مشورہ دیا ۔
’’ لیکن بیٹا انسانی دماغ کی بناوٹ جانوروں سے مختلف ہوتی ہے اور پھر یہ کہ جس طرح انسان سنتا ہے ، بولتا ہے ، سوچ سمجھ کر اپنے کام انجام دیتا ہے ، ہمیں ان باتوں کا بھی علم نہیں ہوسکے گا ۔ اس کے لیے تو ہمیں کچھ اور سوچنا پڑے گا ۔ شاید کوئی مصنوعی انسان بنانا پڑے ، کوئی مشینی کل پرزوں والا انسان ، جس کو وہ مصنوعی دماغ کنٹرول کرے اور اس سے کام کروائے ۔ ‘‘
’’ یعنی ……  ایک روبوٹ ؟ ‘‘ عظیم اس حیرت انگیز انکشاف پر اٹھ کھڑا ہوا ۔
’’ ہاں شاید ، ایک روبوٹ ہی اس مسئلے کا حل ہے ۔ ‘‘ انکل احسن سوچتے ہوئے بولے ۔
’’ یاہو ……  !  یعنی میرا خواب سچ ہوجائے گا ؟ ہم ایک روبوٹ بنائیں گے ؟‘‘  عظیم خوشی سے چلایا ۔
’’ کیسا خواب بھئی ؟ ‘‘ اب حیران ہونے کی باری انکل احسن کی تھی ۔
’’ دراصل عظیم بہت عرصے سے ایک خواب بار بار دیکھ رہا ہے کہ اس نے ایک روبوٹ بنایا ہے جو انسانوں کی طرح بولتا ہے اور کام کرتا ہے اور آپ اسے بتا رہے ہیں کہ اس میں تمہارا دماغ ہے ۔ ‘‘ ڈیڈی بولے ۔
’’ واقعی یہ تو کمال ہوگیا ……  !  بہت حیرت انگیز بات ہے ۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ جو بات ہم نے ابھی سوچی بھی نہیں تھی وہ اسے بار بار خواب میں دیکھتا رہا ، عظیم تو واقعی جینئس ہے ۔ ‘‘ انکل احسن مزید حیران ہوتے ہوئے بولے تو عظیم نے اپنے کالرز اور اونچے کیے اور کھنکھار کر بولا ،
’’ وہ تو میں ہوں ، ‘‘ اس پر انکل احسن اور ڈیڈی نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور عظیم شرمندہ ہوکر ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔
قہقہوں کی آواز سن کر ممی بھی باہر چلی آئیں ۔ وہ بولیں ، ’’ آدھی رات ہونے کو آئی۔ سونا نہیں ہے کیا آپ لوگوں کو ؟ ایسی کیا مزیدار باتیں ہو رہی ہیں ، میں بھی تو سنوں !  ‘‘
’’ آئیں بھابی ، آئیں۔ آپ کے جینیئس بیٹے کے بارے میں بات ہو رہی تھی ۔ یعنی جس روبوٹ کے بارے میں ہم نے ابھی سوچا بھی نہ تھا، یہ کب سے اس کو خواب میں دیکھ رہا ہے ‘‘ ۔ ڈاکٹر احسن عظیم کی طرف ستائشی نظروںسے دیکھتے ہوئے بولے ۔
’’ کیا ؟ احسن بھائی ……  !  یعنی آپ بھی اس کی بچگانہ باتوں میں آگئے ؟ آپ سے تو مجھے یہ امید نہ تھی ۔میں نے سوچا نہ جانے کتنی اہم گفتگو ہو رہی ہے ، اسی لیے میں نے آپ لوگوں کو اتنی دیر سے ڈسٹرب نہیں کیا تھا ۔‘‘
اس بات پر سب لوگوں نے ایک بار پھر زوردار قہقہہ لگایا اور ممی ناراض ہوکر دوبارہ اندر چلی گئیں ۔ اس لیے سب کو نہ چاہتے ہوئے بھی اُٹھنا پڑا ، انکل احسن اپنے گھر چلے گئے اور عظیم اور ڈیڈی اپنے اپنے کمروں میں ۔ لیکن نیند کسی کو بھی نہ آئی۔ سبھی اس اہم ایجاد کے بارے میں سوچتے رہے ۔
اگلے دن ڈاکٹر احسن علی نے ایک اہم میٹنگ بلائی ، جس میں عظیم اور اس کے ڈیڈی تو تھے ہی ان کے علاوہ ’’ سینٹر آف مالیکیولر جینیٹکس ‘‘ اور ’’ جینیٹکس فارمیڈیکل پروفیشنلز ‘‘ کے تمام ممبران کے علاوہ کچھ مکینیکل اور الیکٹرونک انجینئرز بھی شامل تھے ۔ اس میٹنگ میں سب کو مصنوعی دماغ کے بارے میں بتایا گیا ، اور ایک مکینیکل انسان کی تیاری کے بارے میں گفتگو کی گئی ۔ اگرچہ میٹنگ میں موجود تمام لوگ ملک کے نامور سائنسدان ، پروفیسرز اور انجینئرز تھے ، لیکن مصنوعی دماغ کی ایجاد کا سن کر سبھی حیران رہ گئے ۔ یہ ملک کے لیے ایک اہم ترین ایجاد تھی مگر ڈاکٹر احسن علی نے اس اہم ترین ایجاد کو مصلحتاً راز میں رکھا تھا ، اس لیے کہ جب تک وہ اس پر تجربہ کرکے اس کی کامیابی کا یقین نہ کرلیتے ، عوام کے سامنے نہیں لا سکتے تھے۔ آج کی میٹنگ میں اسی کامیابی کو یقینی بنانے کے بارے میں گفتگو کرنا تھی۔
ایک مکینیکل انسان بنانا نہایت مشکل اور خطرناک کام تھا ۔ اس بظاہر ناممکن کام کو کرنے سے سبھی گھبرا رہے تھے ، لیکن ڈاکٹر احسن علی نے سب کو انتہائی اچھے طریقے سے بریفنگ دی اور سمجھایا کہ یہ کام کتنا اہم اور ضروری ہے۔ وہ بولے  ’’ اگر یہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو ہم نہ صرف ہزاروں لوگوں کی جانیں بچا سکتے ہیں بلکہ اس طرح تمام نقائص اور ممکنہ بیماریوں سے پاک دماغ تیار کرکے ذہین اور صحت مند لوگوں کی تعداد میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں ۔ آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ ہم اس طرح سے قدرت کے کسی کام میں مداخلت کر رہے ہیں بلکہ ہم تو اس طرح سے انسانیت کی بہت بڑی خدمت کریں گے ۔ جینیٹک کو ڈنگ کے ذریعے ہم ان بیماریوں کو بھی دور کرسکتے ہیں جو نسل در نسل چلتی ہیں ، جیسے ذہنی اور جسمانی معذوری ۔ آئے دن سڑکوں پر ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں ، ٹوٹے ہوئے ہاتھ پیر تو جڑ جاتے ہیں اگر نہ جڑیں تو مصنوعی اعضاء لگا دیے جاتے ہیں ۔ لیکن دماغی چوٹیں جو جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہیں ، ہم اُن کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کرپائے ۔
’’انہی سب باتوں کو پیشِ نظر رکھ کر ہم نے یہ مصنوعی دماغ تیار کیا تھا ۔ اب اصل مسئلہ اس دماغ کی آزمائش کا ہے جو ہم کسی انسان پر نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے ہمیں مشینی کل پرزوں کا ایک انسان چاہیے ۔ یعنی ہمیں ایک روبوٹ بنانا ہوگا جس میں ہم یہ مصنوعی دماغ فٹ کرکے اس کی کارکردگی چیک کرسکیں ۔ گو اس کام میں لاکھوں ڈالر لگ سکتے ہیں لیکن اس سے ہمیں جو تجربہ حاصل ہوگا، وہ کہیں زیادہ قیمتی ہوگا ۔ نئے تجربات آزمانے کے لیے اور اس کائنات کاکھوج لگانے کے لیے روبوٹ انسان سے کہیں بہتر ہیں کیونکہ وہ کام کرکے تھکتے نہیں ہیں، اُنہیں آرام اور خوراک کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جاپان کی تو فیکٹریوں میں بھی انسانوں کی جگہ روبوٹ ہی کام کرتے ہیں ، اور ایسی جگہ روبوٹ ہی استعمال کرنے چاہییں جہاں انسان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو ، جیسے کانوں وغیرہ میں اکثر لوگ زہریلی گیسوں سے مر جاتے ہیں ۔
’’میری آرزو ہے کہ پاکستان میں بھی جینیٹک انجینئرنگ اور بایو ٹیکنالوجی کا علم ترقی کرے اور ہم بھی بیماریوں اور کمزوریوں کو دور کرکے صحت مند اور زیادہ طاقت ور انسان بننے میں ان کی مدد کرسکیں ، اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے روبوٹ بھی زیادہ سے زیادہ تیار کرسکیں جو انتہائی حساس اور خطرناک مقامات پر انسان کی جگہ کام کرسکیں ۔ اس کام کے لیے ہمیں اچھے مکینیکل اور الیکٹریکل انجینئرز کی ضرورت ہوگی ۔ مجھے امید ہے کہ اب آپ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے اور اس کام میں میرا ساتھ بھی دیں گے ۔ ‘‘
تمام حاضرین نے ڈاکٹراحسن علی کی بات کی تائید میں تالیاں بجائیں اور انہیں پورے تعاون کا یقین دلایا ۔
٭٭٭
اس پروجیکٹ پر بڑے زور و شور سے کام شروع ہوگیا ۔ لیکن اس کام کو مکمل رازداری سے کیاگیا کیونکہ اس کی کامیابی کے ففٹی ففٹی چانسز تھے اور پھر لوگ اس کی مخالفت بھی کرسکتے تھے کیونکہ جو چیز سمجھ میں نہ آئے ، لوگ اس کو سمجھنے کی بجائے اس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں اور یہ چیز عوام الناس کے سمجھنے کی تھی بھی نہیں۔ لہٰذا رازداری ضروری تھی ۔
مصنوعی دماغ ارتقائی مراحل طے کرچکا تھا ۔دوسری طرف مصنوعی انسان کی تکمیل تیزی سے جاری تھی ۔ ایک تین فٹ کے روبوٹ کا ڈیزائن کمپیوٹر گرافکس کے ذریعے تیار کیا جارہا تھا ۔ اس کے بعد روبوٹ میں لگنے والے ہزارہا پُرزہ جات تیار کیے جانے تھے۔ عظیم بھی اس کام میں بھرپور طریقے سے شریک تھا ۔ وہ ہر ممکنہ مدد کے لیے تیار رہتا تھا ۔
ایسے پرزے تیار کیے جارہے تھے جو مشینی ہوتے ہوئے بھی بالکل انسانی اعضاء جیسے معلوم ہوں اور اسی طرح کام بھی کریں ،  یعنی ہر پرزہ دماغ سے پیغام وصول کرکے اس پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔
آخر چھ ماہ کی لگاتار محنت کے بعدایک ایسے انسانی بچے کا ڈھانچہ تیار ہوگیا جو دیکھنے میں بالکل انسان کی طرح لگتا تھا ، کیونکہ اس کے اوپر انسانی کھال جیسی مصنوعی کھال بھی چڑھائی گئی تھی ، ہیلمٹ کی طرح مضبوط فائبر سے اس کی کھوپڑی بنائی گئی تھی ، جس میں مسام بھی رکھے گئے تھے تاکہ فضاء سے آکسیجن جذب کرسکے ۔ کھوپڑی پر بالوں کی پیوندکاری بھی کی گئی تھی ۔ غرض یہ کہ اس روبوٹ کی ایک ایک نوک پلک اس طرح سنواری گئی تھی کہ یہ کہیں سے بھی ایک مشینی کل پرزوں سے بنا روبوٹ نہ لگتا تھا بلکہ ایک مکمل انسانی بچہ لگتا تھا ۔
سب سے آخری مرحلہ اس روبوٹ کی کھوپڑی میں دماغ فٹ کرنا تھا ۔ یہ کام ڈاکٹر احسن علی نے خود کیا ۔ لہٰذا یہ کام بھی  بخیروعافیت بخوبی انجام پاگیا ۔ دماغ میں آکسیجن اور خون کی سپلائی کا بھی پورا انتظام کیا گیا تاکہ وہ زندہ رہے اور بھرپور طریقے سے کام بھی انجام دیتا رہے۔
ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد تمام ممبران کی موجودگی میں اس روبوٹ کا سسٹم آن کیا جانا تھا۔ یہ دن نہ صرف اس پراجیکٹ پر کام کرنے والی ٹیم کے ممبران کے لیے، بلکہ تمام پاکستانیوں کے لیے ایک تاریخ ساز دن تھا ۔ تاہم ممبران کے علاوہ یہ بات ابھی تک اور کسی کو معلوم نہ تھی ۔
اس روبوٹ کا سسٹم آن کرنے کا فریضہ بھی ڈاکٹر احسن علی ہی نے انجام دیا ۔ تمام حضرات کی اجازت سے جیسے ہی سسٹم آن ہوا ، روبوٹ نے آنکھیں کھول دیں اور گردن گھما کر ادھر اُدھر دیکھا۔ پھر بولا ’’ السلام علیکم !  ‘‘ پھر اس نے اپنے آپ کو دیکھا تو گھبرا گیا اور جلدی سے بولا ،  ’’ انکل ۔ میرے کپڑے کہاں ہیں؟‘‘
اس روبوٹ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ان تمام حضرات کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے، ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کا تجربہ اس حد تک کامیاب ہوسکتا ہے ۔
’’ یاہو !  ‘‘ عظیم نے نعرہ مارا اور انکل احسن سے لپٹ گیا ، ان کو مبارک باد دی ، پھر سب ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے ۔
’’ آپ ۔ سب ۔ لوگ ۔ کس ۔ بات ۔ کی ۔ مبارک ۔ باد ۔ دے ۔ رہے ۔ ہیں ۔ پہلے ۔ مجھے ۔ کپڑے ۔ تو ۔ پہنا ۔ دیں ۔ ‘‘
پیچھے سے یہ الفاظ سن کر سب لوگ چونک پڑے اور دوبارہ اس روبوٹ کی جانب متوجہ ہوگئے ، جس پر وہ اور بھی گھبرا گیا ، تب سبھی لوگوں کو اپنی حماقت کا احساس ہوا ۔ انہوں نے تو سوچا تھا کہ وہ ایک مشین بنا رہے ہیں لیکن یہ خیال نہ رہا کہ اس کے اندر دماغ تو ایک مکمل انسان کا ہے جو سوچ بھی سکتا ہے ۔ لہٰذا فوری طور پر اس روبوٹ کو ایک چادر اُڑھا دی گئی تاکہ وہ مزید شرمندگی سے بچ جائے۔ پھر عظیم کو بازار بھیج کر ایک چھ سالہ بچے کے کپڑے منگوائے گئے ۔ اس روبوٹ کا سائز تین فٹ کے چھ سالہ بچے جتنا رکھا گیا تھا ۔
کچھ دیر میں عظیم کپڑے لے کر آگیا ۔ روبوٹ کپڑے پہن کر مطمئن ہوگیا۔ پھر اِدھر اُدھر دیکھا اور اور لیبارٹری کے ماحول کا جائزہ لیا  اور بولا ’’ مجھے ۔ یہاں ۔ کیوں ۔ رکھا ۔ ہے ؟ مجھے ۔ باہر ۔ جانا ۔ ہے ۔ ‘‘
اس کی یہ بات سن کر سبھی شش و پنج میں پڑگئے ۔ وہ تو اس مشین کو لیبارٹری سے باہر لے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ، کیونکہ اسے مستقل نگرانی اور نگہداشت کی ضرورت تھی ۔ پھر عظیم نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا !
’’ دیکھو ، تمہارا آپریشن ہوا ہے ۔ لہٰذا تم ابھی اس لیبارٹری سے باہر نہیں جاسکتے ۔ ہاں البتہ جب تم بالکل ٹھیک ہو جائو گے تو میں خود تمہیں باہر لے کر جائوں گا ۔ ابھی تم اس بیڈ پر آرام سے لیٹ جائو ، شاباش ۔ ‘‘
’’ بہت ۔ اچھا ۔ بڑے ۔ بھیا ، ‘‘ روبوٹ یہ کہہ کر دوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا ۔
اس کے ’’ بڑے بھیا ‘‘ کہنے پر سبھی لوگ مسکرانے لگے اور شکر بھی کیا کہ اس کی سمجھ میں عظیم کی بات آگئی ۔
اتنا تجربہ بہت کافی تھا۔ لہٰذا اس روبوٹ کو نیند کا ٹیکہ لگا کر سلادیا گیا۔
ساری ٹیم اپنی اس کامیابی پر پھولے نہیں سما رہی تھی ۔ انہوں نے اتنی زبردست مشین ایجاد تو کرلی تھی مگر اب اس مشین کے سوالوں کو دیکھ کر انہیں ایک پریشانی اور لگ گئی تھی کہ اگر کسی دن وہ اس کے سوالوں کا جواب نہ دے پائے تو کیاہوگا ۔ کیونکہ وہ اس مشین کی بے پناہ طاقت سے بھی بخوبی واقف تھے ، البتہ یہ تسلّی ضرور تھی کہ اس روبوٹ کے اندر دماغ عظیم جیسے سمجھدار ، ذہین اور فرمانبردار لڑکے کا تھا۔ لہٰذا کسی گڑبڑ کا کم ہی امکان تھا ۔ بہرحال اس شاندار کامیابی کے لیے ان سب نے خوب جشن منایا ۔
’’ انکل وہ روبوٹ ہوش میں آتے ہی دوبارہ باہر جانے کی ضد کرے گا ۔ لہٰذا میں نے سوچا ہے کہ میں اسے اپنے گھر لے جائوں گا۔ آخر وہ ایک مکمل انسان ہے۔ اسے گھر کا ماحول چاہیے ۔ وہ کب تک اس لیبارٹری میں رہ سکے گا ؟ ‘‘ عظیم نے مشورہ دیا ۔
’’ ارے نہیں بیٹا ، یہ بات ناممکن ہے کہ ہم اسے اس لیبارٹری سے باہر نکالیں۔ ہم نے اسے صرف تجربے کے لیے بنایا تھا، لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ وہ یہاں میری نگرانی ہی میں رہے اورجب میں نہ ہوں تو وہ سوتا رہے ۔ وہ کوئی کھلونا تھوڑا ہی ہے جس کو تم اٹھا کر اپنے گھر لے جائو۔‘‘ انکل احسن نے اپنا فیصلہ سنایا ۔
’’ اوہو ، انکل میں سمجھتا ہوں کہ کھلونا نہیں ہے ، اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ اس پابندیوں کے ماحول میں رہ کر یہ اپنے دماغ کو مکمل طور پر استعمال نہیں کرپائے گا ۔ اگر آپ اس کی دماغی صحت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اسے ماحول بھی ویسا ہی مہیّا کرنا ہوگا اور میرے ساتھ گھر پر یہ بہت خوش رہے گا۔ ہم اس کا بہت خیال رکھیں گے اور پھر ڈیڈی بھی تو ہیں۔ ہم اس کی صحت کا خیال رکھیں گے ۔ ‘‘عظیم کے معقول دلائل سے انکل احسن کو قائل ہونا پڑا ۔
اتنی دیر میں روبوٹ ہوش میں آگیا ۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور اٹھ بیٹھا ۔ انکل احسن اور عظیم کو کھڑا دیکھ کر ادب سے سلام کیا اور عظیم سے بولا!  ’’ بڑے ۔ بھیا ۔ ، میں ۔ باہر ۔ جانا ۔ چاہتا ۔ ہوں ۔ کیا ۔ آپ ۔ مجھے ۔ لے ۔ چلیں ۔ گے ؟ ‘‘
’’ کیا تم میرے ساتھ میرے گھر جانا پسند کرو گے ؟ ‘‘ عظیم نے پوچھا ۔
’’ جی ۔ ہاں ۔ بڑے ۔ بھیا ۔ میں آپ ۔ کے ۔ گھر ۔ چلوں ۔ گا ۔ ‘‘ وہ فوراً تیار ہوگیا ۔
اس کا جواب سن کر انکل احسن مسکرا دیے ۔ اس کو بھی عظیم سے ہی زیادہ اُنسیت محسوس ہورہی تھی۔ شاید اس لیے کہ دماغ تو اسی کا تھا ۔
روبوٹ کو عظیم کے گھر منتقل کرنے کا کام بھی نہایت احتیاط اور رازداری سے کیا گیا۔
’’ ہیلو ممی !  ‘‘ عظیم نے گھر میں داخل ہوتے ہی کہا ۔
’’ ہیلو ۔ ممی !  ‘‘ پیچھے سے ایک اور آواز سن کر ممی چونکیں اور عظیم کے پیچھے دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی ۔
’’ ارے !  یہ چھوٹو میاں کون ہیں ؟ ‘‘ ممی نے عظیم کے ساتھ ایک چھ سالہ بچے کو دیکھ کر پوچھا ۔
’’ ممی ذرا بوجھیں تو یہ کون ہے ؟ ‘‘ عظیم نے ممی سے الٹا سوال کر ڈالا ۔
’’ بھئی میں کیا جانوں یہ کس کا بچہ ہے ۔ ویسے کچھ عجیب سا لگ رہا ہے ۔ ‘‘ ممی غور سے دیکھتے ہوئے بولیں لیکن سمجھ نہ سکیں ۔
’’ ویسے ممی آپ نے اس کا نام خوب رکھا ہے، چھوٹو میاں ۔ آج سے ہم اسے اسی نام سے بلائیں گے ۔ ارے ممی یہی تو ہے میرے خوابوں کی زندہ تعبیر اور انکل احسن کا کارنامہ ، یعنی میرا روبوٹ ۔‘‘
’’ ہا ……  !  ‘‘ ، ممی سخت حیرت میں مبتلا ہوگئیں ، ’’ تم سچ کہہ رہے ہو ؟ لیکن یہ تو بالکل انسان کا بچہ لگتا ہے ۔ ‘‘
’’ ارے چھوٹو میاں ۔ وہاں کھڑے کیا کر رہے ہو ؟ ممی سے ہاتھ ملائو نا ۔ ‘‘ عظیم نے اس کو آگے کیا تو وہ ممی کی طرف بڑھا ۔
’’ ارے ارے ……  دور کرو اسے ۔ میں بھلا اس مشین سے کیوں ہاتھ ملانے لگی ؟ ‘‘ ممی خوفزدہ ہو کر کچن میں گھس گئیں اور دروازہ بند کرلیا۔ جبکہ روبوٹ باہر کھڑا ممی ، ممی کرتا رہا ۔ عظیم کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہو رہا تھا۔ وہ بولا ’’ ارے چھوٹو میاں، واپس آجائو۔ ممی ہاتھ نہیں ملائیں گی وہ تم سے ڈر گئی ہیں ۔ ‘‘ تب وہ روبوٹ کھٹ کھٹ چلتا ہوا واپس آگیا اور پوچھا ، ’’ بڑے ۔ بھیّا ۔ ، ممی ۔ مجھ ۔ سے ۔ کیوں ۔ ڈر۔گئیں ؟ ‘‘
’’ اس لیے کہ تم ایک مشین ہو ، ایک روبوٹ ہو ، ‘‘ عظیم نے سمجھایا
’’ لیکن ۔ میں ۔ تو ۔ آپ ۔ جیسا ۔ انسان ۔ ہوں !  ‘‘ چھوٹو میاں قدرے ناراض ہوتے ہوئے بولے تو عظیم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ جلدی سے بولا  ’’ میرا مطلب ہے کہ ممی تمہیں ایسا سمجھ رہی ہیں۔ میں تو جانتا ہوں کہ تم ایک انسان ہو ، بالکل انسان ہو ۔ ‘‘
’’ میں تمہیں اپنے گھر لے تو آیا ہوں لیکن اب تمہیں بھی مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا ۔تمہیں اوپر میرے ساتھ میرے کمرے میں رہنا ہوگا اور میری یا ممی کی اجازت کے بغیر اس کمرے اور اس گھر سے باہر نہیں نکلنا ہے ۔ سمجھ میں آیا؟ ۔ ‘‘
’’ وہ ۔ کیوں ۔ بڑے ۔ بھیّا ؟ میں ۔ سارا ۔ دن ۔ کمرے ۔ میں۔ اکیلا ۔ بیٹھ ۔ کر ۔ بور ۔ ہو ۔ جائوں ۔ گا ۔ ‘‘ چھوٹو میاں پریشان ہوگئے۔
’’ ارے گھبرائو نہیں چھوٹو میاں۔ یہ پابندی صرف تمہاری حفاظت کے لیے ہے ۔ جب میں گھر پر ہوں گا تو ہم دونوں لان میں جاکر گھومیں گے بھی اور کھیلیں گے بھی ، اب خوش ؟ ‘‘ عظیم نے سمجھایا ۔
’’ جی ۔ بڑے ۔ بھیّا ۔ بالکل۔ بات ۔ سمجھ ۔ میں۔ آ ۔ گئی ۔ ‘‘ چھوٹو میاں مطمئن ہو کر عظیم کے پیچھے پیچھے ہولیے۔
کچھ ہی دنوں میں ہی ممی ڈیڈی بھی چھوٹو میاں سے مانوس ہوگئے ۔ ممی اس سے پہلے سارا دن گھر پر اکیلی رہتی تھیں۔ اب ان کو ایک ساتھی مل گیا۔ وہ سارا دن ممی سے باتیں کرتا اور کام میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔ بچے تو ویسے بھی سب کو اچھے لگتے ہیں۔ ان کے آنے سے گھر میں رونق ہو جاتی ہے اور پھر چھوٹو میاں کے آنے سے پہلے نوکر کی بھی چھٹی کرادی گئی تھی۔ اس لیے ممی اور بھی اکیلی ہوگئی تھیں ۔ لیکن چھوٹو میاں تو اکیلے ہی دس نوکروں کے برابر تھے ۔ وہ ممی کے ساتھ کام بھی کرتے اور ان کا دل بھی بہلاتے تھے۔
ایک دن ممی کچن میں آئیں تو دیکھا چھوٹو میاں بیٹھے رو رہے ہیں ۔
’’ ارے چھوٹو! تمہاری آنکھوں میں آنسو ؟ تم رو کیوں رہے ہو ؟ ‘‘ ممی نے پریشان ہوکر پوچھا ۔
’’ نہیں ۔ ممی ۔ میں ۔ رو ۔ نہیں ۔ رہا ۔ پیاز ۔ کاٹ ۔ رہا ۔ تھا ۔ خود ۔ ہی ۔ پانی ۔ آ ۔ گیا ۔ ‘‘ چھوٹو نے آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا ۔
ممی کو بہت ہنسی آئی ، انہوں نے چھوٹو میاں کے ہاتھ سے پیاز لے لیاور خود کاٹنے لگیں اور پیاز کاٹنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں بھی پانی آگیا تو چھوٹو میاں بولے :
’’ ممی ۔ یہ ۔ فضول ۔ چیز ۔ کیوں ۔ کاٹتے ۔ ہیں ؟ اس ۔ کا ۔ کیا۔ فائدہ ہے ؟ یہ ۔ تو ۔ رُلا ۔ دیتی ۔ ہے ۔ ‘‘
’’ ارے بیٹا ، تم نہیں سمجھ سکتے کہ اس چھوٹی سی چیز کے کتنے فائدے ہیں ۔ اس کو کھانے سے انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے ، مگر تمہیں کیسے پتا چلے گا؛ تم تو کچھ کھا ہی نہیں سکتے ۔ ‘‘
’’ میں ۔ اسے ۔ کھا ۔ سکتا ۔ ہوں ۔ ‘‘ یہ کہہ کر چھوٹو نے دو تین پیاز اٹھا کر منہ میں رکھ لیے اور چبائے ، پھر تھوک دیے اور بولے:
’’ مجھے ۔ تو ۔ کوئی ۔ فائدہ ۔ محسوس ۔ نہیں ۔ ہوا ۔ ‘‘ ممی بہت ہنسیں،   ’’ ارے بے وقوف تمہارا کوئی پیٹ تو ہے نہیں ، تم اس کو کھا کر کیسے فائدہ حاصل کرسکتے ہو؟ اسی لیے تم نے اسے کھا کر تھوک دیا تھا ، یہ تو انسانوں کو فائدہ دیتی ہے۔ تم توایک روبوٹ ہو ۔ ‘‘
’’ میں ۔ بھی ۔ انسان ۔ ہوں ۔ آپ ۔ لوگوں ۔ کو ۔ یقین ۔ کیوں۔ نہیں ۔ آتا ؟ ‘‘ چھوٹو میاں غصے سے بولے۔
’’ اچھا اچھا بیٹا ، مان لیا۔ تم بھی انسان ہو مگر ابھی بہت چھوٹے ہو نا۔ جب بڑے ہو جائو گے، تب تم خود بخود سمجھ جائو گے ۔ ‘‘ ممی بھی سنجیدہ ہوگئیں۔
’’ ابھی ۔ میں ۔ کتنا ۔ بڑا ۔ ہوں ؟ ‘‘ چھوٹو نے اپنی عمر جاننا چاہی کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو عظیم کے برابر سمجھتے تھے ۔ ویسے یہ حقیقت بھی تھی کیونکہ سائنسدانوں نے اُن کا جسم تو اپنے فائدے کے لیے چھوٹا بنایا تھا،ورنہ دماغ تو ان کا ایک بڑے انسان کا تھا ۔
’’ ابھی تم چھ ماہ کے ہو ، ‘‘ ممی نے بہت سوچ کر بتایا، کیونکہ اس روبوٹ کو بنے ہوئے چھ ماہ ہی ہوئے تھے ۔
’’ اچھا  ؟ ابھی ۔ تو ۔ میں ۔ بہت ۔ چھوٹا ۔ ہوں !  ‘‘ یہ کہہ کر چھوٹو میاں آنکھوں کا پانی صاف کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
سارا دن گھر کو اندر سے لاک کرکے رکھا جاتا تھا ، تاکہ اچانک کوئی بن بلایا مہمان نہ آن دھمکے اور چھوٹو کو نہ دیکھ لے ۔ اس لیے عظیم کی ممی نے بھی سب سے ملنا جلنا بند کردیا تھا۔
عظیم روزانہ صبح کالج جانے سے پہلے اور شام کو کالج سے آکر چھوٹو میاں کو لان میں ٹہلاتا تھا اور اس کے ساتھ کھیلتا بھی تھا ، کیونکہ اس کی دماغی صحت کے لیے تازہ ہوا اور تفریح ضروری تھی ۔ اس طرح چھوٹو میاں بھی خوش رہتے اور عظیم بھی۔
جب سے عظیم کا آپریشن ہوا تھا، تب سے ڈاکٹر نے اس کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کی تلقین کی تھی اور تمام بھاگ دوڑ والی تفریحوں ، محنت والے کھیلوں ، موٹر بائیک بھگانے اور بہت زیادہ پڑھائی کرنے سے بھی منع کردیا تھا کیونکہ ان سب سے اس کے دماغ پر زور پڑتا جس سے اس کی صحت پھر سے بگڑ سکتی تھی ۔ ایسے میں چھوٹو میاں کے ساتھ تھوڑی بہت تفریح اس کو غنیمت لگتی تھی ۔
ایک دن ممی کو ضروری کام سے باہر جانا تھا ۔ عظیم کالج گیا ہوا تھا اور گھر پر چھوٹو کے سوا کوئی نہ تھا ۔ لہٰذا انہوں نے چھوٹو کو سمجھایا کہ مجھے ضروری کام سے باہر جانا ہے اور میں باہر سے تالا لگا کر جارہی ہوں تاکہ کوئی اندر نہ آسکے۔ تم بھی اپنا خیال رکھنا ؛ میں جلدی آجائوں گی ۔
’’ ممی ۔ آپ ۔ فکر ۔ نہ ۔ کریں ۔ میں ۔ گھر ۔ کا ۔ خیال ۔ رکھوں ۔ گا ۔ ‘‘ چھوٹو میاں نے تسلی دی تو ممی مطمئن ہو کر چلی گئیں ۔
چھوٹو میاں تھوڑی دیر تک توآرام سے بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے رہے۔ جب پروگرام ختم ہوگیا تو سوچا کیوں نہ باہر جا کر چہل قدمی کر لوں ۔ گیٹ پر تو تالا ہے، لہٰذا کسی کے اندر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس خیال کے آتے ہی چھوٹو میاں نے ریموٹ ایک طرف پھینکا ، صوفے سے چھلانگ لگائی اور باہر آگئے۔ بڑی اچھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ چھوٹو میاں کو بڑا مزہ آیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ پچھلی دیوار پر کچھ آہٹ سی محسوس ہوئی۔ چھوٹو میاں ٹھٹھک گئے اور آہٹ کی جانب دیکھنے لگے ، وہاں دیوار پر ایک شخص نمودار ہوا جس نے اپنے منہ پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔چھوٹو میاں ایک درخت کے پیچھے چھُپ گئے، وہ شخص اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا صدر دروازے کی جانب بڑھنے لگا ۔ چھوٹو نے پہلے کبھی چور تو نہ دیکھا تھا لیکن اس شخص کی مشکوک حرکات دیکھ کر اُنہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی ٹھیک آدمی نہیں ہے اور کسی بُری نیت سے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ چھوٹو سے نہ رہا گیا اور وہ درخت کے پیچھے سے نکل آئے اورآگے بڑھ کر بولے :
’’ رُکیے ۔ جناب ۔ گھر ۔ میں ۔ کوئی ۔ نہیں ۔ ہے ۔ ‘‘
چور اچانک یہ آواز سن کر گھبرا گیا اور اس نے پستول نکال لیا ، پھر جیسے ہی پیچھے مُڑ کر دیکھا، اس کی ہنسی نکل گئی ۔ وہ حیرت سے بولا :
’’ تم کون ہو ؟ کہاں سے آئے ہو ، باہر تو تالا لگا ہوا ہے ؟ ‘‘
’’ میں ۔ اس ۔ گھر ۔ کا ۔ فرد ۔ ہوں ۔ اور ۔ گھر ۔ کی ۔ حفاظت ۔ کر۔ رہا ۔ ہوں۔‘‘ چھوٹو میاں نے کہا ۔
چور کو یہ سن کر دوبارہ ہنسی آگئی وہ بولا !  ’’ ننھے میاں !  پہلے بولنا تو سیکھ لو پھر گھر کی حفاظت بھی کر لینا ۔ ‘‘
’’ ویسے تم ہو کون ؟ ‘‘ چور کچھ سوچتے ہوئے بولا ، ’’ جہاں تک مجھے علم ہے، اس گھر میں تو کوئی بچہ نہیں ہے ۔ لہٰذا ننھے میاں اب تم اپنے گھر جائو، چلو شاباش ، چلو ۔ ‘‘ چور پستول دکھاتے ہوئے بولا۔
چھوٹو میاں کو بڑا غصہ آیا ، ایک تو بار بار ننھے میاں کہہ رہا ہے، اوپر سے پستول بھی دکھا رہا ہے۔ چھوٹو نے اس کے ہاتھ سے پستول چھینا اور مروڑ کرایک طرف پھینک دیا۔ پھر بولے :
’’ مجھے ۔ بچہ ۔ سمجھتے ۔ ہو ۔ اور ۔ خود ۔ کھلونوں ۔ سے ۔ کھیلتے ۔ ہو ۔ ‘‘
چور نے پستول کا یہ حال دیکھا تو اس کی گھگھی بندھ گئی اور وہ خوفزدہ ہوکر ’’ بھوت ، بھوت ‘‘ کہتا ہوا گیٹ کی طرف بھاگا ۔ گیٹ نہ کھلا تو وہ دیوار کی طرف لپکا ، مگر اتنا خوفزدہ تھا کہ دیوار بھی نہ پھلانگ سکا اور وہیں گرکر بے ہوش ہوگیا ۔ چھوٹو میاں اس بزدل شخص کی حرکات کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ پہلے تو اس کے اُٹھنے کا انتظار کرتے رہے۔ جب وہ نہ اُٹھا تو اس کو کھینچ کر درخت کی چھائوں میں لٹا دیا۔ پھر اس کے پاس ہی ٹہلنے لگے ۔
تھوڑی دیر بعد گیٹ کھلنے کی آواز آئی اور ممی اندر داخل ہوئیں ، وہ یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گئیں کہ ایک شخص درخت کے نیچے بے ہوش پڑا ہے اور چھوٹو میاں اس کے پاس ٹہل رہے ہیں ۔
’’ کون ہے یہ شخص ، اور تم باہر کیوں نکلے ؟ ‘‘ ممی نے آتے ہی چھوٹو سے سوال کیا ، تو چھوٹو نے سارا قصہ سنا دیا۔ ممی نے سر پکڑلیا !
’’ اوہ میرے خدا !  یہ چور ہے ؟ میں ابھی پولیس کو فون کرتی ہوں ، مگر ……  نہیں ، پہلے عظیم کو فون کرتی ہوں؛ وہ خود ہی نمٹ لے گا؛ کیونکہ اگر پولیس کو بلایا تو زیادہ گڑبڑ ہوجائے گی ؛ چور نہ جانے کیا سٹوری سنائے ۔ ‘‘ ممی نے پستول کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’ ممی ۔ آپ ۔ بڑے ۔ بھیا ۔ کو ۔ فون ۔ کریں ۔ میں ۔ پستول ۔ کا۔ بندوبست ۔ کرتا ۔ ہوں ۔ ‘‘ چھوٹو میاں ممی کی بات سمجھتے ہوئے بولے۔
چھوٹو میاں نے پستول اُٹھا کر سیدھا کیا اور اس کو چور کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔ ممی سوچ رہی تھیں کہ وہ تو خیر ہوئی کہ یہ چور بے ہوش ہوگیا ورنہ اگر کہیں یہ چھوٹو پر ہاتھ اُٹھا بیٹھتا تو اپنی جان سے جاتا ۔
تھوڑی دیر میں عظیم بھی آگیا۔ وہ بھی بے ہوش چور کو دیکھ کر اور چھوٹو کا کارنامہ سن کر پریشان ہوگیا۔ سوچا کہ آج تو چھوٹو کا راز فاش ہوکر ہی رہے گا اور پھر میں انکل احسن کو کیا جواب دوں گا ۔ اس نے پہلے تو چھوٹو میاں کو اندر کمرے میں لے جا کر بند کیا۔ پھر ایک گلاس میں پانی لے کر باہر آیا اور چور کے منہ پر چھڑکا تو چور ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ اس کی نظر عظیم پر پڑی تو وہ پھر ’’بھوت، بھوت ‘‘ کہتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس دفعہ گیٹ کھلا تھا اور وہ باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ چور عظیم کو دیکھ کر سمجھا کہ شاید وہ بچہ بھوت اب بڑے آدمی کی شکل میں آگیا ہے ۔ عظیم نے بہت شکر کیا کہ وہ بزدل چور خود ہی ڈر کر بھاگ گیا اور مزید کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ عظیم اور ممی بہت دیر تک چور کی حالت پر ہنستے رہے ۔
جب انکل احسن آئے تو عظیم نے ان کو بھی چور والا واقعہ سنایا۔ وہ بھی یہ قصہ سن کر پریشان ہوگئے اور بولے:
’’ تم لوگ اسے مذاق سمجھ رہے ہو ، میں نے تمہیں تنبیہہ کی تھی کہ یہ انتہائی قیمتی چیز ہے۔ اس کی بے حد حفاظت کرنی ہے ۔ اگر وہ چور گولی چلا دیتا تو ہماری برسوں کی محنت اور کروڑوں روپے تو ڈوب گئے تھے نا ۔ میرا خیال ہے اب میں اس روبوٹ کو واپس لے جاتا ہوں اور اس کا دماغ نکال کر ’’ ان کیوبیٹر ‘‘ میں رکھ دیتا ہوں؛ بہت ہوگئی تفریح ۔ ویسے بھی یہ تجربہ تو ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر کامیاب رہا ہے اور ہمیں کیا چاہیے ۔ اب سب سے اہم چیز اس دماغ کی حفاظت ہے تاکہ بوقتِ ضرورت کسی انسانی جان کو بچانے کے لیے استعمال کیا جاسکے ۔ اب تم اسے میرے ساتھ بھیجنے کی تیاری کرو ۔ ‘‘
انکل احسن کی یہ بات سن کر عظیم اور ممی دونوں گھبرا گئے۔ وہ تو چھوٹو میاں سے اس قدر مانوس ہوگئے تھے کہ اُسے اپنے گھر کا فرد سمجھنے لگے تھے اور اس کو کہیں بھیجنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
’’ نہیں انکل ، پلیز ایسا نہ کہیں، چھوٹو کو لے جانے کی بات نہ کریں ۔ ‘‘ عظیم نے درخواست کی تو ممی بھی جذباتی ہو کر بولیں:
’’ ہاں احسن بھائی، چھوٹو کو تو میں اپنا دوسرا بیٹا سمجھنے لگی ہوں ۔ آپ اس کو لے کر نہ جائیں۔ پہلے جو کچھ ہوا، انجانے میں ہوا۔ ہم آئندہ اس کا بہت خیال رکھیں گے اور آپ کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے ۔ ‘‘
’’ میں چھوٹو کے لیے آپ لوگوں کے جذبات سمجھتا ہوں ، لیکن آپ نے جو واقعہ سنایا ، میں اس کی وجہ سے سخت پریشان ہوں۔ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ آپ لوگ سمجھ نہیں سکتے کہ اس روبوٹ کی حفاظت میرے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ضروری ہے۔ بہرحال آپ لوگ مجبور کر رہے ہیں اس لیے آپ کی بات مان لیتا ہوں،لیکن اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر انکل احسن جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔
’’ اوہ ……  تھینک یو انکل ، اس مہربانی کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ ‘‘ عظیم انکل کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ساتھ چلنے لگا ۔ وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے باہر نکل گئے ۔
ممی اندر آئیں تو چھوٹو میاں جو دروازے کے پیچھے کھڑے سب گفتگو سن رہے تھے، باہر آگئے اور ممی کا ہاتھ پکڑ کر بولے :
’’ تھینک ۔ یو ۔ ممی ۔ آج ۔ آپ ۔ نے ۔ میری ۔ جان ۔ بچا ۔ لی۔ ورنہ ۔ انکل ۔ مجھے۔ پھر ۔ لیبارٹری ۔ میں ۔ لے ۔ جا ۔ کر ۔ بند ۔ کر ۔ دیتے۔ وہاں ۔ میں ۔ اکیلا ۔ بہت ۔ ڈرتا ۔ اب ۔ میں ۔ کبھی ۔ باہر ۔ نہیں ۔نکلوں ۔ گا ۔ ، میری ۔ توبہ ۔ ہے ، ‘‘ چھوٹو نے کان پکڑے ۔
ممی نے ہنستے ہوئے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ بھی ممی سے لپٹ گیا۔
’’ یہ کیا ہو رہا ہے بھئی ، یہ تو میری ممی ہیں ، تم کیوں لاڈ کر رہے ہو ، ‘‘ پیچھے سے آتا ہوا عظیم بولا ۔
’’ تم میرے بڑے بیٹے ہو اور یہ میرا چھوٹا بیٹا ہے ، اس کو بھی مجھ سے لاڈ کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ تمہیں۔ ‘‘ ممی عظیم کا کان کھینچتے ہوئے بولیں ۔ جبکہ چھوٹو میاں بھاگ کراپنے کمرے میں چلے گئے کہ کہیں اب بڑے بھیا اس کے کان نہ کھینچیں۔
’’ اچھا بھئی مجھے معاف کردیں ، میں تو مذاق کر رہا تھا ۔ ‘‘ عظیم نے اپنا کان چھڑایا۔
’’ یہ تو بتائیے کہ یہ چھوٹو اتنا رک رک کر کیوں بولتا ہے ؟ ‘‘ ممی نے ڈیڈی سے پوچھا۔
’’ ہاں ، یقیناً یہ بولنے کا ایک غیر فطری انداز ہے۔ بات یہ ہے کہ انسان چاہے کتنی بھی ترقی کرلے ، کیسے ہی انسان بنا لے ، مگر جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے، اس کا مقابلہ تو نہیں کرسکتا نا ۔ اس روبوٹ کا ’’ ووکل باکس ‘‘ یعنی بولنے کا آلہ بھی مصنوعی ہے اور سننے کا آلہ بھی۔ اس لیے جب یہ کوئی بات سنتا ہے تو اس کو دماغ تک پہنچنے میں اور پھر مناسب الفاظ سوچ کر ادا کرنے میں وقت تو لگتا ہے نا۔ اس لیے اس کو جواب دینے میں تھوڑی دیر لگتی ہے ۔ اور پھر ہم نے تو یہ روبوٹ طبی نقطۂ نظر سے بنایا تھا ، اس سے گفتگوکرنے کے لیے تو نہیں بنایا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اب حالات بالکل مختلف ہوگئے ہیں۔ ہم نے تو ایسا خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ایک روبوٹ ہم سے انسانوں کی طرح باتیں کرے گا اور ہم بھی اسے اپنے بچوں کی طرح چاہیں گے ۔ ‘‘ ڈیڈی نے ممی کو تفصیل سے سمجھایا لیکن ساتھ ہی کچھ جذباتی بھی ہوگئے۔
’’ یہ ۔ کس ۔ روبوٹ ۔ کا ۔ ذکر ۔ ہو ۔ رہا ۔ ہے ؟ ‘‘ اچانک چھوٹو نے پیچھے سے آکر پوچھا تو ڈیڈی چونک گئے ، پھر مسکرا کر بولے :
’’ آئو آئو ……  چھوٹو تمہارا ہی ذکر ہو رہا تھا ۔ ‘‘
’’ مگر ۔ میں ۔ تو ۔ انسان ۔ ہوں ۔ کوئی ۔ روبوٹ ۔ نہیں ۔ ، آپ ۔ لوگ۔ بار ۔ بار ۔ مجھے ۔ روبوٹ ۔ کہہ ۔ کر ۔ میرا ۔ مذاق ۔ کیوں ۔ اُڑاتے ۔ ہیں ؟ ‘‘
’’ ارررے ……  چھوٹو میاں آپ تو خفا ہوگئے۔ دراصل آپ روبوٹ کی طرح رک رک کر بولتے ہیں۔ اسی لیے کہہ دیتے ہیں لیکن اگر آپ کو بُرا لگتا ہے تو آئندہ نہیں کہیں گے ۔ ‘‘ ڈیڈی مسکراتے ہوئے عظیم کی طرف دیکھ کر بولے۔
’’ ڈیڈی یہ روبوٹ کہنے پر بُرا مان جاتا ہے ، ‘‘ عظیم نے ڈیڈی کے کان میں کہا ۔
’’ بُرا کیوں نہیں مانے گا؟ آخر دماغ کس کا ہے؟ ‘‘ ڈیڈی نے بھی سرگوشی میں کہا اور دونوں ہنس پڑے جبکہ چھوٹو میاں اُنہیں حیرانی سے دیکھتے رہے کہ اب کس بات پر ہنس رہے ہیں یہ لوگ !
**************************
چور والے واقعے کے بعد سے سب لوگ اور زیادہ احتیاط کرنے لگے تھے اور چھوٹو میاں بھی اب باہر نکلتے ہوئے ڈرتے تھے۔ اُنہیں تو صرف اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں انکل احسن اُنہیں واپس لیبارٹری نہ بھیج دیں، ورنہ وہ کسی چیز سے ڈرنے والے نہ تھے ۔
عظیم نے اُنہیں پڑھنا لکھنا اور کمپیوٹر استعمال کرنا تو سکھا ہی دیا تھا ، جو انھوں نے بہت آسانی سے سیکھ لیا تھااور اب لگتا تھا کہ وہ سب کچھ سیکھے سکھائے ہیں۔ لہٰذا اب تو چھوٹو میاں ہوتے اور عظیم کی کتابیں ہوتیں۔ باری باری چھوٹو میاں نے گھر کی سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے بعد عظیم کی کمپیوٹر انجینئرنگ کی کتابوں کا نمبر آیا ، وہ بھی کچھ عرصے میں ختم کرڈالیں ۔
’’ میں ۔ کمپیوٹر ۔ انجینئرنگ ۔ کا ۔ امتحان ۔ دینا ۔ چاہتا ۔ ہوں ، ‘‘ ایک دن چھوٹو میاں نے انکشاف کیا تو سب حیران رہ گئے۔ اُنہیں اپنی سماعت پر یقین نہ آیا ۔
’’ ارے چھوٹو میاں، یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ بھئی آپ امتحان نہیں دے سکتے ۔ ‘‘ عظیم بولا
’’ کیوں ۔ نہیں ۔ دے ۔ سکتا ۔ امتحان؟ یہ ۔ میرا ۔ حق ۔ ہے ۔ آپ ۔ جس ۔ طرح ۔ چاہیں ۔ میرا ۔ ٹیسٹ ۔ لے ۔ لیں ۔ مجھے ۔ آپ ۔ کی۔ کتاب ۔ کا ۔ ایک ۔ ایک ۔ صفحہ ۔ یاد ۔ ہے ، ‘‘ چھوٹو میاں نے احتجاج کیا۔
’’ اوہو ……  چھوٹو میاں یہ بات نہیں ہے ، ہمیں آپ کی صلاحیتوں پر شک نہیں ہے ، لیکن پھر بھی یہ بات ناممکن ہے ۔ ‘‘
’’ کیوں ۔ نا ۔ ممکن ۔ ہے ۔ دنیا ۔ میں ۔ کوئی ۔ بات ۔ نا ۔ ممکن ۔ نہیں ۔ ہے ۔ میں ۔ امتحان ۔ دونگا ۔ دونگا ۔ دونگا ۔ ہاں ۔ ‘‘
’’ اچھے بچے ضد نہیں کرتے ۔ ‘‘ ممی نے بھی سمجھایا ۔
’’ میں ۔ بچہ ۔ نہیں ۔ ہوں ۔ مجھے ۔ وجہ ۔ بتائیں ‘‘ چھوٹو میاں ہار ماننے کو تیار نہ تھے ۔
’’ وجہ یہ ہے کہ انکل احسن نے تمہیں گھر سے نکلنے سے منع کیا ہے ، کیا تم لیبارٹری واپس جانا چاہتے ہو ، ‘‘ عظیم نے ایسی معقول وجہ بتائی ، جس کو سن کر چھوٹو میاں بغیر کچھ کہے سنے سیدھے اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ وجہ ان کی سمجھ میں آگئی تھی ۔
تمام کتابیں چاٹ جانے کے بعد چھوٹو میاں کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہوگئے۔ سارا دن انٹرنیٹ سے چمٹے رہتے؛ تمام ویب سائیٹس سرچ کرلیں؛ گوگل میں گھسے رہتے ۔ ایک دن اُنہیں خیال آیا کہ سب لوگ اُنہیں روبوٹ کہتے ہیں، کیوں نہ روبوٹس کی ویب سائٹس چیک کروں شاید مجھ جیسے اور بھی ہوں ۔
اُنہوں نے تمام ویب سائٹس چیک کرلیں ، مگر تمام روبوٹس مشینی کل پُرزوں سے بنے ، مکینیکل انداز میں حرکت کرتے ہی دکھائی دیے۔ کوئی اپنے جیسا نظر نہ آیا تو اُنہیں کچھ تسلی ہوئی کہ وہ روبوٹ نہیں،بلکہ ایک انسان ہی ہیں ۔
پھر ایک دن چھوٹو میاں نے اپنا ای میل ایڈریس بنایا اور باقاعدہ چیٹنگ شروع کردی ۔ لیکن یہ کام وہ عظیم کی غیر موجودگی میں کرتے تاکہ وہ ناراض نہ ہو ۔
کچھ ہی دنوں میں چھوٹو میاں ہر دل عزیز چیٹر (Chatter)  بن گئے۔ لڑکیاں زیادہ دلچسپی سے ان کے ساتھ چیٹنگ کرتیں ، وہ ان کی باتوں سے بہت محظوظ ہوتی تھیں اور بہت سے سوالات کرتی تھیں ۔ چھوٹو میاں دنیا جہان سے بیگانہ ہوکر سارا دن کمپیوٹر پر ہی بیٹھے رہتے ۔
’’ چھوٹو میاں، یہ تو بتائیے آپ کی عمر کیا ہے ؟ ‘‘ ایک دن ایک لڑکی نے سوال کیا ۔
چھوٹو میاں کو خود تو اپنی عمر کا اندازہ نہ تھا لیکن اُنہیں ممی کی کہی ہوئی بات یاد آگئی۔ تقریباً چھ ماہ پہلے اُنہوں نے چھوٹو کی عمر چھ ماہ بتائی تھی لہٰذا اُنہوں نے بڑے سوچ کر بتایا ،
’’ ایک ۔ سال ‘‘ ۔
’’ کیا ……  ؟ ‘‘ لڑکی حیران رہ گئی ۔
’’ یعنی آپ ابھی دودھ پیتے بچے ہیں ؟ ‘‘ لڑکی بولی اور سکرین سے غائب ہوگئی ، وہ شاید چھوٹو میاں کو جھوٹا سمجھی ۔ چھوٹو میاں بڑے حیران ہوئے لیکن ساتھ ہی خوش بھی ہوئے کہ اس طرح اس لڑکی سے جان چھُوٹ گئی ، ورنہ جیسے ہی چھوٹو میاں آن لائن ہوتے تھے وہ کھٹ سے آدھمکتی تھی ۔ اب تو چھوٹو کو لڑکیوں سے جان چھڑانے کی اچھی ترکب ہاتھ آگئی تھی ۔
’’ چھوٹو میاں، یہ آپ کا نام کیسا ہے ؟ ’ چھوٹو میاں ‘ ، یہ بھی کوئی نام ہوا ؟ لگتا ہے آپ اپنا اصلی نام نہیں بتانا چاہتے ۔ ‘‘ زیادہ تر لڑکیاں یہی سوال کرتی تھیں جس کا چھوٹو میاں کچھ اس طرح جواب دیتے :
’’ شاید میرا قد بہت چھوٹا ہے اس لیے مجھے چھوٹو کہتے ہیں‘‘
’’ اچھا تو آپ بونے ہیں !  ‘‘ دوسری طرف سے جواب آتا ، اور چھوٹو میاں کی سمجھ میں نہ آتا کہ بونا ہونے میں کیا برائی ہے ۔
چونکہ چھوٹو میاں اپنی تعلیم ’’ کمپیوٹر انجینئرنگ ‘‘ بتاتے تھے، اس لیے اکثر لڑکے لڑکیاں ان سے کمپیوٹر کے بارے میں سوالات پوچھنے لگے تھے ، جن کے وہ بڑی سنجیدگی سے ایک ٹیچر کی طرح جواب دیتے اور یہ کام ان کو بڑا اچھا لگتا ۔
آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بڑھتا گیا تو چھوٹو میاں نے اپنی ایک ویب سائٹ بھی بنا لی جس پر وہ باقاعدہ آن لائن سوالوں کے جواب دینے اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے لگے ، جبکہ گھر والے اس بات سے بالکل بے خبر تھے ۔
کمپیوٹر کے طالب علموں میں چھوٹو میاں بہت مقبول ہوگئے ، جسے دیکھو اُنہی کا ذکر کر رہا ہوتا۔ ہوتے ہوتے یہ خبر عظیم کے کالج تک بھی پہنچ گئی، سبھی لڑکے ’’ چھوٹو ڈاٹ کام ‘‘ ہی کا ذکر کر رہے ہوتے ۔
’’ یہ چھوٹو ڈاٹ کام کیا ہے جس کا تم لوگ ہر وقت ذکر کرتے رہتے ہو ؟ ‘‘ ایک دن عظیم نے اپنے ایک دوست سے پوچھا ۔
’’ یار عظیم !  ’ چھوٹو ڈاٹ کام ‘ کو نہیں جانتے ؟ حیرت ہے !  بھئی یہ کمپیوٹر نالج سے متعلق ایک ویٹ سائٹ ہے جس پر ایک چھوٹو نام کا لڑکا کمپیوٹر سے متعلق لوگوں کے سب سوالوں کے جواب دیتا ہے ۔ بھئی کیا کمال کا لڑکا ہے ، کیا نالج ہے اس کی ۔ اور تم کس دنیا میں رہتے ہو جو چھوٹو کو نہیں جانتے؟ ‘‘ دوست نے عظیم کو ہلاتے ہوئے پوچھا ، اور عظیم سوچ رہا تھا کہ یہ دوسرا چھوٹو کہاں سے آگیا جو مجھے پتہ نہ چل سکا۔ عظیم کو اس لیے پتہ نہ چل سکا کہ ایک تو چھوٹو میاں کبھی بھی عظیم کے سامنے آن لائن نہ ہوتے تھے ، دوسرے عظیم نے بھی کمپیوٹر پر بیٹھنا کم کردیا تھا تاکہ چھوٹو میاں کو زیادہ موقع مل سکے ، کیونکہ ان کے لیے اور کوئی مصروفیت نہ تھی۔ پھر ڈاکٹر نے بھی عظیم کو بصری کام کرنے سے منع کر رکھا تھا ۔ ابھی عظیم کے لیے صحت کا خیال رکھنا اس کی پڑھائی سے زیادہ ضروری تھا ، کیونکہ جان ہے تو جہان ہے ۔
’’ کون ہے یہ چھوٹو، ہم بھی تو دیکھیں ؟ ‘‘ عظیم نے یہ سوچتے ہوئے کمپیوٹر آن کیا ، اور چھوٹو ڈاٹ کام کی ویب سائٹ کھولنے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ کھل کر ہی نہیں دے رہی تھی ۔
’’ کون ہے بھئی یہ چھوٹو ، کہاں ہے ؟ ‘‘ عظیم جھنجلاتے ہوئے بولا۔
’’ میں ۔ تو ۔ یہاں ۔ ہوں ۔ بڑے ۔ بھیا !  ‘‘ اچانک پیچھے سے آتے ہوئے چھوٹو میاں نے جواب دیا تو عظیم چونک پڑا ۔
’’ اچھا تو یہ آپ کا کارنامہ ہے ؟ مجھے پہلے ہی شک تھا ، یہ چھوٹو ڈاٹ کام والا کیا چکر ہے ؟ بولو ……  ‘‘ عظیم نے تفتیش شروع کردی تو چھوٹو میاں گھبرا گئے۔
’’ بب ۔ بڑے ۔ بھیا !  آ آآپ ۔ کو ۔ کس س س ۔ نے ۔ بتایا ؟ ‘‘ چھوٹو میاں مزید ہکلانے لگے ۔
’’ اچھا !  مجھے کس نے بتایا ؟ میرے پورے کالج کے منہ پر ’ چھوٹو ڈاٹ کام ‘ کا ذکر ہے ، نہیں پتہ تو صرف مجھے نہیں پتہ !  ‘‘ عظیم غصے میں بولے جارہا تھا، ’’ چھوٹو ! تم نہیں سدھرو گے ، کوئی نہ کوئی حرکت ضرور کرجاتے ہو ، تم سے آرام سے نہیں بیٹھا جاتا ۔ تم نے اپنا ایڈریس اور فون نمبر بھی ضرور بتایا ہوگا ، خاص طور پر لڑکیوں کو ۔ اب اگر یہ راز فاش ہوگیا کہ یہ چھوٹو صاحب کون ہیں تو ہم انکل احسن کو کیا جواب دیں گے ؟ بولو !  اب چپ کیوں کھڑے ہو ۔ ‘‘
’’ وہ ۔ بڑے ۔ بھیا ۔ آآآپ ۔ چپ ۔ کریں ۔ تو ۔ میں ۔ کچھ۔ بولوں ۔ ‘‘ چھوٹو میاں پھر ہکلاتے ہوئے بولے۔
’’ہاں ……  بولو !  اب آپ کے پاس رہ کیا گیا ہے بولنے اور بتانے کو ؟ سب کچھ تو اپنے اُن چیٹنگ میٹس کو بتا چکے ہو ۔ ‘‘ عظیم کو بہت ہی غصہ آرہا تھا ، اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس حرکت پر تو چھوٹو کی پٹائی کردے۔
’’ آئی ۔ ایم ۔ سوری !  بڑے ۔ بھیا ۔ میری ۔ وجہ ۔ سے آپ ۔ کو۔ اتنی ۔ تکلیف ۔ ہوئی ۔ لیکن ۔ اس ۔ میں ۔ پریشانی ۔ کی ۔ کوئی بات ۔ نہیں۔ ہے ۔ ، بہت ۔ سے ۔ لوگوں ۔ نے ۔ میرا ۔ ایڈریس ۔ اور ۔ نمبر ۔ مانگا ۔ مگر۔ میں ۔ نے ۔ کسی ۔ کو ۔ نہیں ۔ بتایا ‘‘
’’ یہ تو تم نے عقلمندی کا کام کیا چھوٹو میاں ، شاباش ۔ ‘‘ عظیم خوش ہوتے ہوئے بولا ۔
’’ لیکن ۔ کچھ ۔ لڑکیوں ۔ کو ۔ میں ۔ نے ۔ آپ ۔ کا ۔ سیل ۔ نمبر۔ دے ۔ دیا۔ تھا ! ‘‘ چھوٹو نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
’’ او ……  نو !  ‘‘ عظیم اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا، کیونکہ اس کا سیل نمبر اس کے سارے دوستوں کو معلوم تھا ۔ چھوٹو میاں جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئے کیونکہ اس بات پر ضرور ان کی پٹائی ہوسکتی تھی۔
**************************
’’ اچھا تو آپ ہیں ’ چھوٹو میاں ‘ ؟ اور کہتے تھے میں تو نہیں جانتا کون ہے یہ چھوٹو ڈاٹ کام !  ‘‘ عظیم کے کالج جاتے ہی کچھ دوستوں نے اس کو گھیر لیا۔ ان میں لڑکیاں بھی شامل تھیں، جن کا کہنا تھا کہ اس نے خود ہمیں اپنا سیل نمبر دیا تھا ۔ ان کی بات اپنی جگہ بالکل سچ تھی جس کا عظیم کے پاس کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ چھوٹو کا راز فاش کردے جو وہ نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا چپ کرکے سب کی باتیں برداشت کرتا رہا اور دل ہی دل میں چھوٹو کو کوستا رہا ، کیونکہ ایسی باتیں تو اس نے کبھی نہ سنی تھیں ، کالج میں اس کی بڑی اچھی شہرت تھی اور اب تو سبھی طرح طرح کی باتیں کہہ رہے تھے کوئی کہتا ، ’’ یار تم تو بڑے چھپے رستم نکلے ، نام بدل کر اتنی شہرت حاصل کرلی اور اپنے دوستوں کو ہوا بھی نہیں لگنے دی ، ‘‘ تو دوسرا کہتا ، ’’ یہ تو صرف لڑکیوں کو ہی فون نمبر دیتا ہے ، ویسے تو بڑا شریف بنتا تھا ۔ ‘‘ تیسرا بولا ،’’ یار ہمیں بھی لفٹ کرا دیا کرو۔ ہم بھی تمہارے کلاس فیلو ہیں ۔ ‘‘ عظیم سب کی بکواس چپ کرکے سن رہا تھا اور خون کے گھونٹ پی رہا تھا ۔ عظیم کے وہ دوست جو اس کے بہت قریب تھے وہ بولے !  ’’ ساری دنیا فائدہ اُٹھائے اور اپنے ہی دوست محروم رہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے یار؟اب تو ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے ، تم سے پڑھنے تمہارے گھر آیا کریںگے۔
’’ نہیں ……  نہیں !  گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے تم لوگوںکو بھی جو پوچھناہو، آن لائن ہی پوچھ لیا کرو ، ‘‘ عظیم ان کے گھر آنے کی بات سن کر ایک دم گھبرا گیا ۔
’’ اچھا اچھا ، نہیں آتے ہم تمہارے گھر ، ڈرو نہیں کنجوس کہیں کے۔ ویسے جب سے تمہارا آپریشن ہوا ہے، تم ہم دوستوں سے دور دور رہنے لگے ہو ، نہ ہمارے گھر آتے ہو ، نہ اپنے گھر بلاتے ہو ، آخر وجہ کیا ہے ؟ ‘‘ ایک دوست نے پوچھا ۔
’’ ہاں ……  وہ ……  دراصل ڈاکٹر نے زیادہ باتیں کرنے اور گھومنے پھرنے سے منع کیا ہے۔ اس طرح دماغ پر زیادہ زور پڑتا ہے نا تو سر میں درد ہونے لگتا ہے ۔ ‘‘ عظیم نے بہانہ بنایا ۔
’’ اچھا ۔ ڈاکٹر نے منع کیا ہے ، چلو پھر تو مجبوری ہے ورنہ ہم تو پریشان تھے کہ نہ جانے عظیم کو کیا ہوگیا ہے ۔
اس دن عظیم نے بڑی مشکل سے دوستوں سے جان چھڑائی اور گھر آکر سب سے پہلے اپنا سیل نمبر بدلا تاکہ مزید کوئی بدمزگی نہ ہو ، پھر اس نے آکر ممی سے چھوٹو کی خوب شکایتیں کیں اور کافی دن چھوٹو سے ناراض رہا۔ چھوٹو میاں بھی اپنی حرکتوں پر شرمندہ رہے۔ کئی دن تک چھوٹو میاں معافی مانگتے رہے ، ممی ڈیڈی نے بھی سفارش کی تب کہیں جاکر عظیم کا دل صاف ہوا ۔
**************************
عظیم کئی دن سے نوٹ کر رہا تھا کہ جب بھی وہ ٹوتھ برش کرنے جاتا ہے تو اس کا برش پہلے سے گیلا ہوتا ہے۔ اس نے سوچا چھوٹو میاں ہی میرا واش روم استعمال کرتے ہیں، لہٰذا انھیں پتہ ہوگا ، اس نے سوچا۔
’’ چھوٹو میاں آپ احتیاط سے منہ ہاتھ نہیں دھوتے ، روز میرا ٹوتھ برش گیلا ہوجاتا ہے ۔ ‘‘
’’ بڑے ۔ بھیا ۔ منہ ۔ ہاتھ ۔ تو ۔ میں ۔ بہت ۔ احتیاط ۔ سے دھوتا۔ ہوں ۔ ٹوتھ ۔ برش ۔ تو ۔ دانت ۔ صاف۔ کرنے ۔ سے ۔ گیلا ۔ ہو ۔ جاتا۔ ہے ۔ ‘‘
’’ کیا ؟؟؟؟ آپ میرے ٹوتھ برش سے دانت صاف کرتے ہیں؟ مگر آپ کون سا کھانا کھاتے ہیں جو آپ کو دانت صاف کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ؟ ‘‘
’’ لیکن ۔ بڑے ۔ بھیا ۔ ٹی وی ۔ پر ۔ ڈاکٹر ۔ بچوں ۔ کو ۔ ہدایت ۔ کر ۔ رہے ۔ تھے ۔ کہ ۔ دن ۔ میں ۔ دو بار ۔ دانتوں کو۔ برش ۔ کریں‘‘ ۔
’’ اچھا ، اچھا ٹھیک ہے  !  میں آپ کو دوسرا برش لا دوں گا ، کسی کا ٹوتھ برش استعمال نہیں کرتے ۔‘‘
’’ اور یہ میرا پرفیوم کہاں گیا ؟ ‘‘ اچانک اس کی نظر اپنے پسندیدہ پرفیوم کی بوتل پر پڑی جس کو عظیم کبھی کبھار ہی ہاتھ لگاتا تھا۔ وہ اب خالی ہوچکی تھی۔
’’ وہ ۔ ……   بڑے ۔ بھیا ۔ میں ۔ لگا ۔ لیتا ۔ ہوں ۔ کبھی ۔ کبھی۔ جب ۔ آن ۔ لائن ۔ ہوتا ۔ ہوں۔ تو ۔ ‘‘ چھوٹو نے انکشاف کیا۔
’’ اوہ ……  میرے خدا !   بھئی آن لائن ہوتے وقت آپ کی خوشبو تھوڑی آتی ہے کسی کو ۔ لگتا ہے اب یہ کمپیوٹر یہاں سے ہٹانا ہی پڑے گا، ورنہ پتا نہیں یہ اور کیا کیا گل کھلائے گا !  ‘‘ عظیم غصے سے بڑبڑاتا رہا ۔
’’ نہیں ۔ بڑے ۔ بھیا ۔ یہ ۔ غضب ۔ نہیں ۔ کرنا ۔ ورنہ ۔ میں ۔ بور۔ ہو ۔ جائوں ۔ گا ۔ ‘‘ اس دھمکی سے چھوٹو میاں گھبرا گئے۔
’’ میں ۔ وعدہ ۔ کرتا ۔ ہوں ۔ آئندہ ۔ آپ ۔ کی ۔ کسی ۔ چیز ۔ کو۔ ہاتھ ۔ نہیں ۔ لگائوں ۔ گا ۔ ‘‘
عظیم چھوٹو کو غصے سے گھورتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ۔ نیچے جاکر اس نے ممی سے چھوٹو کی شکایت کی۔ ممی ۔ ممی کو بہت ہنسی آئی وہ بولیں:
’’ بھئی اگر تمہارا کوئی چھوٹا بھائی ہوتا نا وہ تو تمہارے کان پکڑوا دیتا، اتنا تنگ کرتا ۔ شکر کرو چھوٹو میاں تو پھر بھی اپنی غلطی مان کر معافی مانگ لیتے ہیں ۔ ‘‘
’’ ہاں ۔ واقعی ، یہ بات تو ہے ، چھوٹو تو بالکل اپنا چھوٹا بھائی ہی لگتا ہے۔ اس لیے تو اس پر اپنا غصہ بھی اتار لیتا ہوں لیکن مجھے زیادہ ڈر اس بات کا لگا رہتا ہے کہ پھر کہیں کوئی بڑی غلطی نہ ہو جائے اور انکل احسن کو شکایت کا موقع ملے ۔‘‘ عظیم ذرا جذباتی ہوتے ہوئے بولا تو ممی نے بھی اس کی تائید کی ۔
**************************
دو ماہ بعد عظیم کے فائنل امتحانات شروع ہونے والے تھے اور پڑھائی زوروں پر تھی۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ دن چوبیس گھنٹوں کے بجائے چھتیس گھنٹوں کا ہوجائے اور وہ زیادہ سے زیادہ پڑھائی کرسکے۔
زیادہ پڑھائی کرنے کی وجہ سے اس کے سر میں درد رہنے لگا ۔ جب درد ہوتا تو وہ درد کی گولی کھا لیتا، تھوڑا سا آرام کرلیتا اور پھر سے پڑھائی شروع کردیتا ۔
چھوٹو میاں عظیم کو اس طرح پڑھائی میں غرق دیکھتے تو پریشان ہوجاتے ۔ آخر ایک دن انہوں نے کہہ ہی دیا :
’’ بڑے ۔ بھیا ۔ آپ ۔ اتنی ۔ زیادہ ۔ پڑھائی ۔ نہ ۔ کریں ۔ یہ۔ آپ ۔ کی ۔ صحت ۔ کے ۔ لیے ۔ ٹھیک ۔ نہیں ۔ ‘‘
’’ ارے چھوٹو میاں ، پڑھائی کیسے نہ کروں ، پوزیشن بھی تو لینی ہے ، اور پھر اتنی احتیاط کی وجہ سے پہلے ہی میرے چھ سات مہینے ضائع ہو چکے ہیں۔ اب تو میں وقت بالکل ضائع نہیں کرسکتا ۔ اب تو پڑھنا ہی پڑھنا ہے۔ ‘‘ عظیم نے وضاحت کی ۔
’’ لیکن ۔ بڑے ۔ بھیا ۔ سر ۔ میں ۔ درد ۔ رہنا ۔ بھی ۔ تو ۔ اچھی۔ علامت ۔ نہیں ۔ ہے !  ‘‘ چھوٹو نے خدشہ ظاہر کیا ۔
’’ اس کا تو علاج ہے نا میرے پاس ، ‘‘ عظیم نے میز کی دراز کھولی جس میں سر درد کی گولیوں کا پورا پیکٹ پڑا تھا ،جس میں سے عظیم نے ایک گولی نکال کر کھا لی ۔ چھوٹو میاں چپ کرگئے؛ وہ تو صرف مشورہ ہی دے سکتے تھے۔
شروع میں عظیم کو سر درد کبھی کبھی ہوتا تھا، پھر ہر وقت رہنے لگا۔ عظیم یہی سمجھتا رہا کہ شاید چھ سات ماہ مکمل ریسٹ کرنے کی وجہ سے اس کی عادت ہی خراب ہوگئی ہے ، اسی لیے جب پڑھائی شروع کروں تو سر میں درد ہونے لگتا ہے ، اس لیے اُس نے ممی سے بھی اس کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا کہ کہیں وہ پڑھائی سے منع ہی نہ کردیں۔
ایک دن پڑھتے پڑھتے اتنا شدید درد اُٹھا کہ عظیم کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی بے ہوش ہوگیا۔ چھوٹو میاں نزدیک ہی بیٹھے تھے۔ بوکھلا کر ممی ڈیڈی کو بلانے کے لیے بھاگے ۔ اُن کے تو پیروں تلے زمین ہی نکل گئی ، فوراً ایمبولینس منگوائی اور عظیم کو ہسپتال لے گئے ۔
’’ یا اللہ !   یہ کیا ہو رہا ہے میرے بچے کے ساتھ ؟ ‘‘ ممی نے فریاد کی ۔
’’ یہ درد آج اچانک ہی اُٹھا تھا یا پہلے بھی کبھی ہوا تھا ؟ ‘‘ ڈاکٹر احسن نے ڈیڈی سے پوچھا ۔
’’ احسن بھائی ہمیں تو اس نے کچھ بتایا ہی نہ تھا ، چھوٹو بتا رہا تھا کہ پچھلے ایک ماہ سے یہ درد مسلسل رہنے لگا تھا اور وہ درد کی گولیاں کھا کھا کر پڑھائی کرتا رہا ۔ ‘‘
’’ اوہ میرے خدا ، یہ کیا ہوگیا ، یعنی وہ ایک ماہ سے سر درد میں مبتلا تھا اور کسی کو بھی علم نہ ہوسکا ، یہ تو بہت گڑبڑ ہوگئی ، اب حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں !  ‘‘ ڈاکٹر احسن افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے بولے ۔ ‘‘
’’ آخر ہوا کیا ہے، مجھے بھی تو کچھ بتائیے ؟ ‘‘ ڈیڈی کی سانس اٹک رہی تھی، وہ بمشکل پوچھ پائے ۔
’’ عظیم کے ایکسیڈنٹ کے وقت کوئی انفیکشن پیدا ہوگیا تھا ، جو اس وقت ظاہر نہیں ہوا تھا ، لیکن آہستہ آہستہ بڑھتا رہا اور اب پوری طرح پھیل چکا ہے۔ زیادہ پڑھائی کی وجہ سے دماغ پر بوجھ پڑا جس کی وجہ سے وہ اور تیزی سے پھیلتا گیا۔ اگر شروع ہی میں علم ہو جاتا تو شاید بچت کی کوئی صورت نکل آتی ۔ اب تو سب عظیم کے ہوش میں آنے پر منحصر ہے ، وہ مسلسل بے ہوش ہے جوکہ اچھی علامت نہیں ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دماغ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے ، مجھے ایسا کہنا تو نہیں چاہیے لیکن اگر جلدی ہوش میں نہ آیا تواس کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے ۔ ‘‘ ڈاکٹر احسن مایوسی سے بولے ۔
ڈیڈی بیٹھے مسلسل زمین کو گُھور رہے تھے۔ کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہ تھی ، آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے جو نہ بہہ رہے تھے نہ جذب ہو رہے تھے ۔
پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، عظیم کو ہوش نہ آیا ۔ ممی ڈیڈی بے بسی کی تصویر بنے عظیم کے سرہانے کھڑے تھے۔ ڈاکٹر احسن عظیم کے سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی ٹیسٹوں کی رپورٹس کا بغور معائنہ کر رہے تھے۔
’’ ڈاکٹر ، اب کیا ہوگا ؟ کیا ہم اپنے بچے کو اسی طرح موت کے منہ میں جاتا ہوا دیکھتے رہیں گے !  ‘‘ ڈیڈی بے بسی سے بولے ، اور ممی نے پھر رونا شروع کردیا ۔
’’ آپ لوگ دعا کیجیے ، دعا کے بغیر کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا۔ شاید اللہ تعالیٰ کوئی سبب پیدا کردے ، اب آپ لوگ بھی گھر جائیں ، بھابی کو آرام کی ضرورت ہے۔ صبح سے آپ لوگ اسی طرح کھڑے ہیں۔ ابھی عظیم کے کچھ اور ٹیسٹ لینے ہیں ، میں شام کو گھر چکر لگائوں گا۔‘‘ ڈاکٹر احسن نے پیشہ ورانہ تسلی دیتے ہوئے کہا ، تو ممی ڈیڈی نہ چاہتے ہوئے بھی گھر چلے آئے ۔
شام کو ڈاکٹر احسن گھر آئے تو ممی ڈیڈی اُنہی کے منتظر تھے ۔
’’ کیا رپورٹ ہے ڈاکٹر ؟ ‘‘ ڈیڈی نے بے چینی سے پوچھا ۔
’’ رپورٹ وہی ہے جو پہلے تھی ۔ ‘‘ ڈاکٹر احسن بولے ۔
’’ ایسا نہ کہیں احسن بھائی، ہم تو جیتے جی مر جائیں گے ، اس کا کوئی تو علاج ہوگا ؟ ‘‘ ممی نے بیتابی سے کہا ۔
’’ بھائی اس بیماری کا کہیں کوئی علاج نہیں ہے ، اور اب تو مرض اتنا بڑھ چکا ہے کہ لا علاج ہوگیا ہے ۔ عظیم کو میں بھی بیٹوں کی طرح چاہتا ہوں ، کیا میں اپنے بیٹے کو مرتا ہوا دیکھ سکتا ہوں ، ‘‘ ڈاکٹر احسن بھی جذباتی ہو کر بول رہے تھے ، ’’ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں کہیں سے نیا دماغ لاکر ……  ‘‘
اچانک ڈاکٹر احسن کے دماغ میں ایک دھماکا ہوا۔ اُنہوں نے ڈیڈی کی طرف دیکھا ، اور وہ ڈاکٹر احسن کا مطلب سمجھ کر کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور خوشی سے بولے ،
’’ واقعی ڈاکٹر ہم تو عظیم کی پریشانی میں بالکل بھول گئے تھے کہ ہم نے چھوٹو کو کس مقصد کے لیے بنایا تھا۔ لیکن اس وقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس آزمائش کا وقت سب سے پہلے ہمیں پر آئے گا ۔ ڈیڈی ایک دم افسردہ ہوگئے ۔
’’ حوصلہ رکھیں احمد علی ، اللہ نے چاہا تو ہمارا یہ تجربہ بھی کامیاب ہوگا، اور ہم اس آزمائش پر بھی پورا اُتریں گے۔ دیکھا ہم نے انسانیت کی بھلائی کی خاطر یہ مشکل کام کیا تھا۔ لیکن اب اس سے ہمارا اپنا بھلا ہونے کی امید ہے ، میں نے کہا تھا نا کہ اللہ بہتر کارساز ہے، وہ ضرور کوئی سبب پیدا کرے گا ، اور اس نے کردیا ۔ ‘‘
’’ مجھے بھی تو کچھ بتائیے، آپ دونوں کیا باتیں کر رہے ہیں ۔ ‘‘ ممی نے بے چینی سے پوچھا ۔
’’ ارے بھابی کمال ہوگیا ، یہ سب آپ کی دعائوں کا نتیجہ ہے ، یعنی پچھلے ایک سال سے ہم دن رات جس اہم پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، وہی ہمارے ذہن سے نکل گیا تھا ۔ ہم نے چھوٹو میاں یعنی اُس روبوٹ کو اسی دن کے لیے تو تیار کیا تھا کہ دماغ کے کسی جان لیوا مرض میں مبتلا شخص کی زندگی بچائی جاسکے ۔ اب ہم اس روبوٹ کا دماغ عظیم کے دماغ میں ٹرانسپلانٹ کریں گے اور جدید سائنس کا کرشمہ دیکھیں گے۔ یہ عظیم کو بچانے کی ہماری آخری کوشش ہوگی ، باقی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ‘‘
’’ کیا مطلب! یعنی آپ چھوٹو کا دماغ عظیم کے سر میں لگائیں گے ؟ ‘‘ ممی بے یقینی سے بولیں ۔
’’ جی ہاں بھابی ، آپ سمجھیں کہ اللہ نے عظیم کو نئی زندگی دینے کا بندوبست کردیا ہے ، ‘‘ ڈاکٹر احسن خوشی سے بولے ۔
’’ نہیں نہیں احسن بھائی ، یہ کیسے ہوسکتا ہے! میرا ایک بیٹا تو موت کے منہ میں جارہا ہے، دوسرے کو بھی قربان کردوں۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی ۔ ہم اللہ سے فریاد کر تو رہے ہیں۔ اگر عظیم کی زندگی ہوئی تو وہ ضرور کوئی بہتر راستہ نکالے گا ۔ ‘‘
’’ اوہو ، بیگم ، بھئی یہ وقت جذباتی ہونے کا نہیں ہے ، ‘‘ ڈیڈی نے سمجھاتے ہوئے کہا ، ’’ ہمارے پاس اپنے بیٹے کو بچانے کا یہی ایک راستہ ہے ، اور ہمارا صرف ایک ہی بیٹا ہے ، ہم اس کی جان بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ‘‘
’’ بالکل ، اور اب ہمیں بالکل وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ، آپ چھوٹو کو بلائیں تاکہ میں جلد سے جلد آپریشن کا بندوبست کرسکوں۔ اگر دیر ہوگئی تو ساری عمر کا پچھتاوہ رہ جائے گا ۔ ‘‘ ڈاکٹر احسن بولے تو ڈیڈی نے جلدی سے چھوٹو کو آواز دی ، جو ڈاکٹر احسن کو دیکھ کر پہلے ہی اپنے کمرے میں جا چھپا تھا ۔
’’ جی ڈیڈی !  ‘‘ چھوٹو ایک ہی آواز پر بھاگا آیا ۔
’’ جلدی سے آئو بیٹا ، ہمیں ابھی ڈاکٹر احسن کے ساتھ جانا ہے۔ ‘‘
’’ مگر کیوں ڈیڈی، اب تو میں نے کوئی غلطی نہیں کی ؟ ‘‘ ڈاکٹر احسن کے ساتھ جانے کا سن کر چھوٹو میاں ڈر گئے تھے ۔
’’ نہیں نہیں ، میں اسے نہیں جانے دوں گی ۔ ‘‘ ممی سسک پڑیں اور چھوٹو کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔
’’ نہیں ممی میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گا ، اور بڑے بھیا بھی گھر آکر مجھے ڈھونڈیں گے ، ‘‘ وہ بھی ڈر کر ممی سے لپٹ گیا ۔
’’ ارے بیٹا ،ڈرو نہیں ہم تو عظیم سے ہی ملنے جا رہے ہیں ، وہ آپ کو یاد کر رہا ہے ۔ آجائو ، شاباش ، جلدی کرو ۔ ‘‘ ڈیڈی نے چھوٹو کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔ ممی نے بمشکل اسے چھوڑا اور رونے لگیں ۔ چھوٹو بھی پلٹ پلٹ کر ممی کو دیکھتا رہا ۔
’’ خدا حافظ بیٹا،اب میں تمہیں کبھی نہیں دیکھ پائوں گی ، ‘‘ ممی بڑبڑاتی اور ہاتھ ہلاتی رہیں ۔
’’ اے اللہ ، میں نے تو تجھ سے بڑے بیٹے کی زندگی چاہی تھی اور اب چھوٹا بھی چلا گیا ، یہ کیسا امتحان ہے ؟ ‘‘ ممی سجدے میں گر کر روتی رہیں۔
ڈاکٹر احسن اور ڈیڈی چھوٹو کو پہلے عظیم سے ملانے کے لیے لے گئے تھے ، کیونکہ وہ بہت ڈرا ہوا تھا ، اور ڈاکٹر احسن نہیں چاہتے تھے کہ اسے لیبارٹری لے جا کر اور خوفزدہ کردیں۔ اس طرح اس کے دماغ پر برا اثر پڑسکتا تھا اور وہ اس کے دماغ کو ہر صورت ٹھیک رکھنا چاہتے تھے ۔
’’ بڑے ۔ بھیا ۔ آپ ۔ کو ۔ کیا ۔ ہوگیا ۔ ہے ۔ آنکھیں ۔ کھولیں۔ نا۔ ‘‘ چھوٹو میاں عظیم کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے۔
’’ دیکھیں ۔ بڑے ۔ بھیا ۔ اب ۔ تو ۔ میں ۔ اچھا ۔ بچہ ۔ بن ۔ گیا ۔ ہوں، میں ۔ نے ۔ آپ ۔ کا ۔ برش ۔ اور ۔ پرفیوم ۔ بھی۔ استعمال۔ نہیں۔ کیا۔ اور نہ ۔ چیٹنگ ۔ کی ۔ ہر ۔ وقت ۔ آپ ۔ کو ۔ یاد ۔ کرتا ۔ ہوں ۔ آپ۔ جلدی ۔ سے ۔ گھر ۔ آجائیں ۔ نا ۔ ‘‘
چھوٹو میاں کا پیار اور بے چینی دیکھ کر ڈیڈی اور ڈاکٹر احسن کی آنکھیں بھر آئیں ۔ وہ چھوٹو کو بے ہوش کرنے کے لیے انجیکشن تیار کرنے لگے ۔
’’ اچھا، چھوٹو بیٹا ، تم آج عظیم کے پاس ہی رک جائو ، میں چلتا ہوں۔ آپ کی ممی اکیلی ہیں۔ ‘‘ ڈیڈی اپنے آنسو چھپا کر جلدی سے نکل گئے۔
ڈاکٹر احسن نے وقت ضائع کیے بغیر چھوٹو کو بے ہوش کیا ، اور ڈاکٹرز کی ٹیم بلا کر آپریشن کی تیاری شروع کردی ۔
یہ ایک اور تاریخ ساز مرحلہ تھا جب ایک انسان کی کھوپڑی میں ایک مصنوعی دماغ فٹ کیا جانا تھا۔ کامیابی یا ناکامی ……  ففٹی ففٹی چانسز تھے ، کچھ بھی ہوسکتا تھا ۔
عظیم کے ممی ڈیڈی کو ڈاکٹر احسن پر پورا بھروسہ تھا ، اور اب اس رسکی آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا ۔ ان کا بیٹا تو ویسے بھی لمحہ بہ لمحہ موت کے منہ میں جارہا تھا ۔
ڈاکٹر احسن کی زندگی کا یہ مشکل ترین آپریشن تھا ۔ اگر یہ آپریشن کامیاب ہوجاتا تو ان کی پوری دنیا میں شہرت ہوجاتی ، لیکن ان کو تو اس وقت صرف عظیم کی فکر تھی ، جس کو وہ ہر قیمت پر بچانا چاہتے تھے ۔
آپریشن تین دن تک جاری رہا۔ سب ڈاکٹرز کے لیے یہ ایک کڑا اور دشوار ترین مرحلہ تھا ۔ اور سب محنت کے ساتھ ساتھ خدا سے کامیابی کی دعا بھی کر رہے تھے ۔
بالآخر آپریشن مکمل ہوگیا ۔ آپریشن کیا تھا ، ایک تجربہ تھا جو وہ عظیم کے دماغ پر کر رہے تھے ،اور اس تجربے کی کامیابی کا انحصار عظیم کے ہوش میں آنے پر تھا ۔
چوتھے دن جب ڈاکٹر احسن کی شکل نظر آئی تو ڈیڈی بے تابی سے ان کی جانب بڑھے اور بولے ،
’’ ڈاکٹر !   کہیئے کیسا رہا آپریشن ؟ میرا بچہ اب کیسا ہے ؟ ‘‘
’’ ابھی تو وہ بے ہوش ہے ۔ جب اینستھیزیا کا اثر ختم ہوگا تو وہ ہوش میں آجائے گا ، اس کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ ‘‘ نہ صرف ممی ڈیڈی ، بلکہ ڈاکٹرز کی پوری ٹیم عظیم کے جلد از جلد ہوش میں آنے کی دعا کر رہے تھے ۔
اور آخرکار عظیم کو ہوش آ ہی گیا ۔ سب سے پہلے ڈاکٹر احسن نے سجدۂ شکر ادا کیا کہ نہ صرف ان کے اس مریض کی جان بچ گئی جس کو وہ بیٹوں کی طرح چاہتے تھے بلکہ ان کا تجربہ بھی کامیاب ہوگیا تھا اور ان کی عزت بھی رہ گئی تھی ۔
عظیم نے آنکھیں کھولیں تو سب سے پہلے انکل احسن پر نظر پڑی۔  اس نے اُٹھنے کی کوشش کی تووہ بولے :
’’ ابھی ہلو بھی نہیں میرے بچے ، تمہارا آپرشن ہوا ہے اور خدا نے ہمیں اس مشکل ترین گھڑی میں سرخرو کیا ہے ۔ ‘‘
’’ کیوں انکل مجھے کیاہوا ہے ؟ ‘‘ عظیم حیرانی سے بولا۔ اسے تو کچھ علم ہی نہ تھا ۔
’’ ابھی زیادہ باتیں نہ کرو ، نہ ذہن پر زور ڈالو ۔ میں یہ نیند کا انجیکشن لگائے دیتا ہوں تاکہ تم سکون کی نیند سو سکو ۔ ‘‘ انکل نے عظیم کو پھر انجیکشن دے کر سلا دیا ۔
*************************
آج عظیم ہسپتال سے گھر منتقل ہو رہا تھا ۔ اب وہ بالکل صحت یاب ہوچکا تھا ، اور چھوٹو کے صحت مند اور نئے ذہن کے ساتھ گھر آرہا تھا۔ اس دوران اس نے کئی بار چھوٹو کے بارے میں پوچھا لیکن ممی ڈیڈی نے ٹال دیا ۔
اپنے کمرے میں آکر عظیم نے چھوٹو میاں کو ایک کونے میں کھڑا دیکھا ۔
’’ ارے میرا چھوٹو بھائی یہاں کھڑا ہے مجھ سے ملنے بھی نہیں آیا ، ‘‘ عظیم بے تابی سے آگے بڑھا تو ڈیڈی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا اور بولے!
’’بیٹا ، یہ چھوٹو نہیں صرف اس کا جسم ہے ۔ یہ تم سے اب کوئی بات نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا دماغ اب تمہارے پاس ہے ۔ ‘‘
’’ کیا ……  ؟ اتنی بڑی بات ہوگئی اور آپ لوگوں نے مجھے صرف یہ بتایا کہ میرے سر میں درد اُٹھا تھا اس لیے میرا معمولی سا آپریشن کرنا پڑا !  ‘‘ عظیم دکھ سے بولا ، ’’ میرے چھوٹو بھائی نے اتنی بڑی قربانی دی اور مجھے علم ہی نہیں۔ وہاں نیٹ پر سب لوگ چھوٹو کے آن لائن ہونے کا روز انتظار کرتے ہوں گے اب میں ان سب کی تسلی کیسے کروں گا ؟ ‘‘
’’ حوصلہ رکھو عظیم بیٹا ، ہم نے آپریشن کے دوران پھر سے آپ کے دماغ کا ایک خلیہ چوری کرلیا تھا ، کچھ ہی ماہ میں وہ تیار ہوجائے گا تو ہم وہ دماغ چھوٹو کو لگا دیں گے ۔ ‘‘ ڈاکٹر احسن نے عظیم کو تسلی دی ،
’’ وہ تو ٹھیک ہے انکل ، لیکن پھر کسی کو چھوٹو کے دماغ کی ضرورت پڑ جائے گی ۔ آخر کب تک چھوٹو اس طرح قربانی کا بکرا بنتا رہے گا؟‘‘
عظیم نے انکل احسن کو سوالیہ نظروں سے دیکھا ، لیکن ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا ، کیونکہ چھوٹو میاں کی تو زندگی کا مقصد ہی یہی تھا۔

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.