Phool Larki-پھول لڑکی

پھول لڑکی

ایک دفعہ کا زکر ہے کہ کسی گائو ں میں ایک عورت رہتی تھی اس کی کوئی اولاد نہ تھی جس کی وجہ سے وہ بہت اداس رہتی تھی۔ ایک دن گائوں کی ایک بوڑھی عورت اس سے ملنے اس کے گھر آئی اور اس ک اداسی کی وجہ پوچھی۔ اس عورت نے جواب دیا۔’’دراصل میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ہے میری خواہش ہے کہ میری بھی ایک پیاری سی بیٹی ہو اور میں اس کا خیال رکھوں۔‘‘

’’یہ تو کوئی مشکل بات نہیں ہے، میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں!‘‘ بوڑھی سیانی عورت بولی اور اپنے دوپٹے کے پلو سے بندھا ایک بیج کھول کر اس عورت کو دیا اور کہا’’اس بیج کو اپنے گملے میں بو دو پھر دیکھو۔‘‘

اس عورت نے بیج کو گملے میں بو دیا۔ جلد ہی اس بیج میں سے ہری ہری شاخیں پھوٹنے لگیں اور کچھ عرصے میں اس پودے کے درمیان میں ایک کلی نکل آئی ، پھر وہ کلی کھل کر ایک نہایت خوبصورت پیلے پھول میں تبدیل ہو گئی۔ اس عورت نے جھک کر دیکھا تو اس پھول کے بیج میں ایک چھوٹی سی لڑکی بیٹھی تھی جو اس عورت کے انگوٹھے کے برابر تھی۔

ــ’’اوہ! کتنی پیاری چھوٹی سی لڑکی ہے۔‘‘

اس نے ہاتھ بڑھا کر پھول پر سے لڑکی کو اٹھا لیا وہ عورت اس لڑکی کو پا کر بہت خوش ہوئی ۔ آج اس کی خواہش پوری ہو گئی تھی۔ اس نے لڑکی کا نام تھمبلینا رکھا کیونکہ وہ اس عورت کے انگوٹھے کے برابر تھی۔ وہ عورت تھمبلینا سے بہت پیار کرتی اور اس کا بہت خیال رکھتی اس کے چھوٹے چھوٹے کپڑے بناتی۔ ایک ماچس کی خالی ڈبیہ میں ان نے تھمبلینا کا بستر لگا دیا تھا جہاں وہ بڑے آرام سے سوتی تھی۔ تھمبلینا اپنی پیاری پیاری آواز میں گانے سنا کر اس عورت کا دل بہلاتی تھی۔

اس دن تھمبلینا اپنے بستر پر لیٹی اپنی پیاری سی آواز میں کچھ گار رہی تھی کہ پاس ہی جوہڑ میں رہنے والی ایک بڑی مینڈکی نے اس کی آواز سن لی اور کھڑکی سے کود کر وہ کمرے میں آگئی۔اس وقت عورت باورچی خانے میں تھی۔’’اوہ!کتنی پیاری چھوٹی سی لڑکی ہے ، اسے تو میں اپنے ساتھ لے جائوں گی اور اپنے بیٹے سے اس کی شادی کروں گی۔ پھر ہم دونوں مل کر اپنی سریلی آواز میں گانا گایا کریںگے۔ کتنا مزہ آئے گا۔‘‘ یہ کہہ کر مینڈکی نے تھمبلینا کو اٹھا کر اپنی کمر پر بٹھایا اور کھڑکی سے جوہڑ میں چھلانگ لگا دی۔ وہ جوہڑ سیہوتی ہوئی بڑی جھیل میں آگئی جہاں اس کا بیٹا چھوٹی مچھلی کے بچوں کا شکار کرنے کے لیے آیا ہوا تھا۔ بڑی مینڈکی نے تھمبلینا کو کنول کے ایک پتے پر بٹھا دیا اور خود اپنے بیٹے کو تلاش کرنے چلی گئی۔

تھمبلینا بہت پریشان تھی لیکن وہ ہاں سے بھاگ بھی نہیں سکتی تھی۔ کچھ دیر بعد وہاں سے چند مچھلیاں تیرتی ہوئی گزریں۔’’برائے مہربانی میری مدد کرو۔‘‘تھمبلینا نے مچھلیوں سے گزارش کی اور بتایا کہ بڑی مینڈکی اپنے بیٹے سے میری شادی کرنا چاہتی ہے اور مجھے یہاں بٹھا کر چلی گئی ہے ا ب میں یہاں سے کیسے نکلوں؟‘‘

وہ بہت اچھی مچھلیاں تھیں ، انہیں تھمبلینا کی کہانی سن کر بہت افسوس ہوا اور انہوں نے تھمبلینا کی مدد کرنے کا طریقہ سوچ لیا۔ انہوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے دانتوں سے اس پتے کے تنے کو کترنا شروع کر دیا جس پر تھمبلینا بیٹھی تھی۔ آخر سارا دن لگا کر وہ اس پتے کو پودے سے الگ کرنے مٰں کامیاب ہو گئیں اس طرح وہ پتا تیرتا ہوا جھیل کے کنارے سے جا لگا اور تھمبلینا چھلانگ لگا کر کنارے پر آگئی۔ وہاں اس کی ملاقات ایک خوبصورت جنگلی تتلی سے ہوئی وہ تتلی تھملینا کو اپنے پروں پر بٹھا کر جنگل میں لے گئی جہاں ہر طرف پیارے پیارے خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے۔ درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ تھمبلینا نے بھی اس جنگل میں اپنا گھر بنا لیااور اپنی دوست تتلیوں کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔ وہ سارا دن تتلیوں کے ساتھ کھیلتی اور پھل کھا کر گزارا کرتی۔ پھر سردیاں شروع ہو گئیں ۔ سردیوں میں چونکہ کھانا تلاش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے جلدی ہی ساری تتلیاں اور پرندے غائب ہو گئے، کچھ سردی سے مر گئے اور کچھ گرم علاقوں کی طرف کوچ کر گئے ۔ تھمبلینا بالکل اکیلی رہ گئی۔

ایک دن اس کی ملاقات کھیتوں میں رہنے والی اک چوہیا سے ہو گئی۔ ’’میں بہت بھوکی اور اکیلی ہوں، کیا تم میری مدد کر سکتی ہو۔‘‘تھمبلینا نے چوہیا سے کہا۔ وہ چوہیا بہت اچھی تھی اس کو اس چھوٹی لڑکی پر بڑا ترس آیا وہ بولی۔ ’’ہاں !ہاں بالکل تم میرے ساتھ میرے گرم گھر میں رہ سکتی ہو اور کھانا بھی ہم مل کر کھائیں گی۔‘‘

تھمبلینا کافی عرصے تک خوشی خوشی اس کھیتوں کی چوہیا کے گرم گھرمیں رہی ، پھر ایک دن چوہیا نے اس سے کہا۔

’’میں زیادہ دن تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتی، تمہیں جلد اپنے لیے کوئی گھر تلاش کرنا ہو گا۔

ایک دن تھمبلینا پریشانی میں ٹہل رہی تھی کہ اس نے کھیتوں میں ایک مردہ پرندہ دیکھا وہ اس پرندے کے نزدیک گئی تو پتا چلا کہ وہ ایک ابابیل تھالیکن وہ مرا نہیں تھا، بلکہ سردی سے ٹھنڈا اور کمزور ہو گیا تھا۔

تھمبلینا کو اس پر ترس آگیا، اس نے سوکھے پتوں اور گھاس پوس سے اس ڈھک دیا تاکہ وہ گرم رہ سکے۔ تھمبلینا نے اس کا اتنا خیال رکھا کہ وہ ٹھیک وہ کر پھر سے اڑنے کے قابل ہو گیا۔

اس کے صحت یاب ہونے پر وہ بہت خوش بھی تھی اور اداس بھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ٹھیک ہو کر وہ اڑ جائے گا۔ اس کو اداس دیکھ کر ابابیل نے کہا’’چھوٹی لڑکی! میں ایک گرم ملک کی طرف جا رہا ہوں اگر تم بھی چلنا چاہوتو میں تمہیں اپنی پیٹھ پر بیٹھا کر لے جا سکتا ہوں۔‘‘

یہ سن کر تھمبلینا بہت خوش ہوئی اور اچھل کر ابابیل کی کمر پر بیٹھ گئی اور و ہ دونوں گرم ملک کی طرف پرواز کر گئے۔

وہاں پہنچ کر تھمبلینا نے دیکھا کہ یہ سر زمین پھولوں سے بھری ہوئی تھی اور ہر طرف پیلے پیلے پھول کھلے ہوئے تھے اور اور ہر پھول کے اندر چھوٹا سا انسان رہتا تھا بالکل تھمبلینا جیسا۔

انہوں نے تھمبلینا کو دیکھ کر کہا،’’ہم پھولوں کے لوگ ہیں اور تم بھی ہماری نسل سے تعلق رکھتی ہو۔ یہی تمہارا حقیقی دیس ہے، یہی تمہارا گھر ہے ، ہم تمہیں اس دیس میں خوش آمدید کہتے ہیںاور آج سے تمہارا نام مایا ہے۔ تھمبلینا بہت خوش ہوئی کیونکہ اسے آج اپنا اصلی گھر اور نام مل گیا تھااور وہ اپنے دیس میں اپنے جیسے انسانوں میں ہنسی خوشی رہنے لگی۔

 

Author: tasneem

Tasneem Jafri is a teacher by profession, she has been writing stories for kids in magazines and newspapers. She has written many books for kids and received multiple recognition and awards.